پاکستان

’پاک افغان بھائی چارے کی باتیں ماضی کا حصہ،ضرورت کے مطابق تعلقات‘

بارڈر مینجمنٹ ہی سے سرحد کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے، دونوں ملکوں میں اعتماد کا فقدان ہے، بات چیت سے حل ممکن ہے،تجزیہ کار

سینئر تجزیہ کار امتیاز گل نے واضح کیا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان باہمی تجارت صرف اُسی وقت ممکن ہے جب دونوں ملک مشترکہ بارڈر مینجمنٹ کے حوالے سے اقدامات کریں گے۔

ڈان نیوز کے پروگرام 'دوسرا رُخ' میں گفتگو کرتے ہوئے امتیاز گل کا کہنا تھا کہ بارڈر مینجمنٹ ہی وہ حل ہے، جس سے سرحد کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے تاکہ ایک دوسرے پر الزامات کا سلسلہ رک سکے۔

انھوں نے کہا کہ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ دونوں ملکوں میں اعتماد کا فقدان ہے جبکہ اس کا حل تب ہی ممکن ہے جب دونوں بات چیت کے ذریعے کوئی راستہ نکالیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کے تعقلقات میں خرابی کی ایک وجہ بھارت بھی ہے، جس نے گذشتہ کچھ سال میں افغانستان سے مضبوط روابط قائم کیے ہیں جبکہ اسی وجہ سے آج پاک-افغان تجارت میں نمایاں کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔

امتیاز گل نے مزید کہا کہ سیاسی حالات کی وجہ سے دونوں ملکوں کی تجارت 2 ارب 50 کروڑ ڈالر سے کم ہوکر ایک ارب 50 کروڑ ڈالر تک رہ گئی ہے، لہذا اگر بروقت اقدامات نہ ہوئے تو اس میں مزید کمی بھی ہوسکتی ہے۔

'سی پیک پاک-افغان تعلقات میں بھی گیم چینجر'

پاک- چین اقتصادی راہداری منصوبے (سی پیک) کے تناظر میں پاک- افغان تعلقات کے مستقبل پر بات کرتے ہوئے امتیاز گل کا کہنا تھا کہ یہ منصوبہ دونوں ملکوں کے تجارتی تعلقات میں بھی ایک گیم چینجر ثابت ہوسکتا ہے۔

ان کا کہنا کہ 'بدقسمتی سے سیاسی حالات ایسے ہیں، جن سے شمالی افغانستان کو سی پیک منصوبے سے منسلک کرنے میں کئی دشواریوں کا سامنا ہے'۔

امتیاز گل نے مزید کہا کہ سی پیک ایک ایسا منصوبہ ہے، جس سے اس خطے میں موجود تمام ممالک کو فائدہ ہو سکتا ہے، لہذا ہم امید کرتے ہیں دونوں ممالک کے درمیان سیاسی درجہ حرارت کم ہو تاکہ اس معاملے میں پیشرفت ہوسکے۔

انھوں نے کہا کہ 'بھائی چارے والی باتیں ماضی کا حصہ بن چکی ہیں اور اب دونوں ملکوں کو اپنی اپنی ضرورت کے مطابق تعلقات کو مستحکم کرنا چاہیئے'۔

مزید پڑھیں: پاک ۔ افغان طورخم گیٹ غیر معینہ مدت کیلئے بند

خیال رہے کہ پاکستان میں رواں سال 13 فروری سے شروع ہونے والی دہشت گردی کی نئی لہر کے بعد اسلام آباد نے افغانستان کے ساتھ ملنے والی طورخم بارڈر کراسنگ غیر معینہ مدت کے لیے بند کردی تھی۔

اس کے بعد پاک فوج کی جانب سے ملک گیر آپریشن 'رد الفساد' شروع کرنے کا اعلان کیا گیا تھا جس کے تحت پاک افغان سرحد پر مشتبہ دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔

پاکستان نے 76 انتہائی مطلوب دہشت گردوں کی فہرست بھی افغان حکام کے حوالے کی تھی اور ان سے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے افغانستان میں تعینات امریکی ریسولوٹ سپورٹ مشن کے کمانڈر جنرل جان نکلسن کو بھی فون کیا تھا اور افغانستان سے پاکستان پر مسلسل دہشت گردی پر احتجاج کیا تھا۔