تیغ بہادر اور اورنگزیب کی کہانی سے مغل-سکھ تاریخ اخذ ہوتی ہے
شہنشاہ اورنگزیب نے کسی کو بھی 9ویں سکھ گرو، تیغ بہادر کا کٹا سر اور جسم کہیں لے جانے سے منع کر دیا تھا۔ دہلی کے باسی جنہوں نے گرو کا قتل اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا، خوف میں جکڑے ہوئے تھے۔
ان میں سے کئی افراد تیغ بہادر کے عقیدت مند تھے جو گرو نانک کے 8 ویں روحانی جانشین تھے۔ سکھوں کی روحانی تحریک گرو نانک کی وفات پر جو کرتار پور صاحب (موجودہ پاکستان) تک محدود تھی وہ اب پنجاب کے دور دراز علاقوں اور اس کے آگے تک پھیل چکی تھی۔ ان کے پیروکار تمام پس منظر سے تعلق رکھتے تھے جو اپنے ساتھ اپنے وسائل اور افرادی قوت دونوں ساتھ لائے۔
1675 میں گرو تیغ بہادر کے قتل کی وجوہات سرکاری مغل دستاویزات میں اس طرح درج ہیں کہ وہ اپنے ہزاروں پیروکاروں کے ساتھ سفر کیا کرتے تھے۔ گرو کا سیاسی و مادی اثر بڑھنے کی وجہ سے مغل سلطنت کی چھوٹی شاہی ریاستیں سکھ گروؤں کو سیاسی مخالفین کے طور پر دیکھ رہی تھیں۔ ان کے اثر و رسوخ اور طاقت سے مغل شہنشاہ بھی خوب آشنا تھے۔ گرو نانک کے دور کی سیاسی گمنامی کا دور کب کا گزر چکا تھا۔
ایسے کئی حوالے ہیں جو اورنگزیب کے حکم پر گرو تیغ بہادر کے قتل کے متعلق مختلف کہانیاں بیان کرتے ہیں۔ سکھوں کی روایت کے مطابق گرو کشمیری پنڈتوں کے حقوق کے لیے کھڑے ہوئے تھے جنہوں نے ان سے مدد طلب کی تھی کہ وہ شہنشاہ سے ان کی طرف سے مصالحت کا کردار ادا کریں اور ان پر حالیہ نافذ کردہ جزیے کے فیصلے کو واپس لینے کو کہیں۔
گرو اپنے بیٹے گوبند رائے، جو آگے چل کر گرو گوبند سنگھ بنے، کے اصرار پر کشمیری پنڈتوں کے تحفظ کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور دہلی کا رخ کیا۔ جب وہ مغل دربار پہنچے تو ان کا مذاق اڑایا گیا اور ان سے اپنے گرو ہونے کے ثبوت کے طور پر کوئی معجزہ پیش کرنے کو کہا گیا۔ انہوں نے کاغذ کے ایک ٹکڑے پر ایک جادوئی منتر لکھا اور ایک دھاگے کی مدد سے گلے میں باندھ لیا۔ انہوں نے مغل حکام سے کہا کہ جب تک یہ منتر ان کے گلے میں بندھا رہے گا ان کا سر تن سے جدا نہیں ہو سکتا، چاہے جلاد تلوار سے ان کی گردن پر وار ہی کیوں نہ کرے۔
مگر جب گرو کی گردن پر تلوار سے وار ہوا تو سر تن سے جدا ہو گیا۔ بعد میں جب مغل حکام نے گرو کے ہاتھ سے لکھے منتر کو کھول کر دیکھا تو اس میں لکھا تھا، "انہوں نے اپنا سر تو دیا مگر اپنا راز نہ دیا۔"
سکھ مت میں تبدیلی
مگر جوزف ڈیوے کننگھم جیسے کالونیل مؤرخین گرو کے قتل پر ایک مختلف ہی وضاحت پیش کرتے ہیں۔ اس واقعے کے پیچھے چھپے سیاسی مقصد کو سمجھنے کے لیے آپ کو اس دور کے تاریخی پس منظر کا جائزہ لینا پڑے گا جس میں تیغ بہادر کو سکھ گرو کے طور پر مقرر کیا گیا تھا۔ سات سالہ گرو ہر کرشن کی موت کے بعد تیغ بہادر کو سکھ برادری کے سربراہ کے طور پر مقرر کیا گیا تھا۔
ہر کرشن کے قلیل مدتی دور کے دوران ان کے بڑے بھائی، رام رائے، جو گرو کی حیثیت حاصل کرنا چاہتے تھے، نے ان کے خلاف مسلسل سازشیں کرنا شروع کر دیں اور چند مرکزی سکھ سربراہان کے ساتھ لابنگ شروع کی اور سکھ برادری کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ ہی گرو نانک کے روحانی جانشین بننے کے حقدار ہیں۔ اپنی زندگی کی آخری گھڑیوں میں گرو ہر کرشن نے ایک مبہم حکم جاری کیا جس کی تشریح یہ بنی کہ گرو تیغ بہادر کو اگلے گرو کے طور پر مقرر کیا جائے۔
یہ اعلٰی مقام حاصل ہوتے ہی گرو تیغ بہادر نے محصولات کا حجم بڑھانے کے لیے نئے سیاسی اتحاد قائم کرنے شروع کر دیے تا کہ گرو کی حیثیت کے دعوے کرنے والوں سے مقابلہ کیا جاسکے۔ کننگھم کے مطابق گرو اور ان کے پیروکار "ہانسی اور ستلج کے ویران علاقوں کے درمیان لوٹ مار سے اپنا گزارا کرتے تھے جس کی وجہ سے کسانوں میں ان کے خلاف ناپسندیدگی بڑھ گئی تھی۔" گرو نے ایک مسلمان انتہاپسند آدم حافظ کے ساتھ اتحاد قائم کیا اور امیر ہندوؤں اور مسلمانوں پر ٹیکس نافذ کیے۔
مؤرخ نے مزید نشاندہی کی ہے کہ گرو نے بھگوڑوں کو پناہ دی۔ ان کے خلاف ایک اور شکایت شہنشاہ کے کانوں تک رام رائے نے پہنچائی۔ سابقہ گرو ہر کرشن کی ہی طرح گرو تیغ بہادر پر بھی "طاقت ہتھیانے کے لیے جھوٹا دعویٰ کرنے والا" کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
تیغ بہادر مغل شہنشاہوں کے ہاتھوں قتل ہونے والے دوسرے سکھ گرو تھے۔ اس سے پہلے قریب 70 سال قبل 1606 میں پانچویں سکھ گرو، گرو ارجن کو جہانگیر کے حکم پر قلعہ لاہور کے سامنے دریائے راوی کے کناروں پر قتل کیا گیا تھا۔ ان کا قتل سکھ گروؤں کے سلسلے کی تاریخ میں ایک اہم موڑ ثابت ہوا، جس کے بعد سے یہ مذہب ایک عدم تشدد پر مبنی روحانی تحریک سے بدل کر گرو ارجن کے بیٹے اور ان کے روحانی جانشین، گرو پر گوبند کی ایک مسلح مذہبی تحریک بن گیا تھا۔ اس نے خالصہ کے بیج بوئے جس نے سکھ برادری کو اس کی موجودہ صورت بخشی، جسے گرو تیغ بہادر کے بیٹے اور جانشین گرو گوبند سنگھ نے باقاعدہ ایک ادارے کی صورت دی۔
سادہ بیانیے
دونوں گروؤں کے ناحق قتل ان کے عقیدت مندوں میں تحرک کا باعث بنے۔ کمزور سکھ برادری کو ختم کرنے پر تلے انتہاپسندوں کے ہاتھوں میں موجود طاقتور مغل سلطنت کے ساتھ نسلوں سے جاری نہ ختم ہونے والی جنگ میں نیکی و بدی کے درمیان آخری معرکے جیسے عقیدمندی کے حامل جذبات شامل ہو چکے تھے۔ آہستہ آہستہ جوں جوں ان تاریخی واقعات کو مذہبی رنگ حاصل ہوتا گیا ویسے ویسے یہ واقعات اپنے سیاسی حقائق سے محروم ہوتے گئے۔ یہ سادہ سی وضاحتوں تک محدود ہو گئے جن میں نازک پہلؤوں کا مطالعہ شامل نہیں تھا۔ مغلوں اور سکھوں کے تعلقات میں موجود پیچیدگی ختم ہو چکی تھی۔
جہاں ایک جانب گرو ہر گوبند سنگھ کو ایک بہادر ہیرو، جس نے سکھ برادری کو اپنے تحفظ کے لیے مسلح کیا اور جنہیں جہانگیر نے سزا دی تھی کے طور پر پیش کیا گیا (جو بلاشبہ وہ تھے) وہاں مغل شہنشاہ کے ساتھ ان کے دیگر مزید پیچیدہ تعلقات کی کہانیاں کھو گئی تھیں۔ ان کا جہانگیر کے ساتھ گٹھ جوڑ گہری دوستی میں تبدیل ہو چکا تھا، ایک وقت پر تو انہوں نے اپنی افواج کی مدد سے سلطنت میں اٹھنے والی بغاوت کو کچلنے کے لیے شہنشاہ کی مدد بھی کی تھی۔
اسی طرح گرو ارجن کے قتل کی وضاحت جہانگیر کی ہٹ انتہاپسندی کے ذریعے کی جاتی ہے مگر گرو کے شہنشاہ کے باغی بیٹے شہزادے خسرو کے ساتھ قریبی تعلقات کے ذریعے بیان نہیں کی جاتی جس نے اپنے باپ کے خلاف جنگ لڑی اور شکست یاب ہوا۔ اسی فریم ورک میں بڑی ہی خوش اسلوبی سے عدم روادار اورنگزیب کا تاثر بھی سجایا گیا جس نے گرو ہر کرشن اور گرو تیغ بہادر کو دہلی طلب کیا تھا۔
مگر گرو ہر رائے جو گرو ہر کرشن کے والد تھے، ان کی دارا شکوہ کو ان کے بھائی اورنگزیب کے خلاف مدد کا وعدہ کرنے کی کہانی، اس سادہ سے تاریخی بیانیے میں قابل قبول نہیں لگتی۔ اپنے بھائی کو ہرانے کے فوراً بعد اورنگزیب نے گرو ہر رائے کو خانہ جنگی میں ان کے کردار کی وضاحت کے لیے دہلی طلب کیا۔ گرو ہر کرشن اور حتیٰ کہ گرو تیغ بہادر کی آمد بھی اسی تاریخی واقعے سے جڑی تھی۔
مغلیہ سلطنت کے بابر کی گرو نانک کے ساتھ جھڑپ بھی اسی بیانیے کا ایک حصہ ہے۔ اس کہانی نے دونوں کے جانشینوں کے درمیان تعلقات سے جڑے اشارے دیتے ہوئے، پیش گو ئیوں کے اعتبار سے اہمیت حاصل کی۔ کہانی کے مطابق بابر کو گرو کی روحانی قوت کا علم نہیں تھا اور اس نے انہیں قید میں رکھا تھا۔ جلد ہی انہیں گرو کے درویش ہونے کا احساس ہو گیا اور انہیں آزاد کر دیا مگر گرو نانک دربار میں ان کی سرزنش کرنے کے بعد ہی وہاں سے تشریف لے گئے تھے۔
یہی وہ ایک اہم لمحہ تھا کہ جو سکھ گروؤں اور مغل شہنشاہوں کے درمیان تعلقات کی اصل روح کو ظاہر کرنے والا تھا۔ شہنشاہوں کے پاس چاہے کتنی ہی سیاسی طاقت کیوں نہ رہی ہو مگر بالآخر طاقت اسی سچے بادشاہ، اس گرو کے پاس قائم و دائم رہی۔
ہارون خالد لمز سے اینتھروپولوجی میں فارغ التحصیل ہیں۔ وہ پاکستان بھر میں سفر کرتے ہیں اور تاریخی اور ثقافتی ورثے کے بارے میں تحریر کرتے ہیں۔ وہ دو کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔