کھیل

فکسنگ میں ملوث کھلاڑیوں کی سزا مثالی ہو:حفیظ

ملک کی نمائندگی کرنے والوں کو احساس ہوناچاہئیے کہ فکسنگ غلطی نہیں جرم ہےجس سے ملک کی بدنامی ہوتی ہے: سابق کپتان

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان محمد حفیظ نے میچ فکسنگ کو جرم قرار دیتے ہوئے ملوث کھلاڑیوں کو ایسی سزائیں دینے کا مطالبہ کردیا ہے جو آنے والوں کے لیے مثال بن جائیں۔

لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے محمد حفیظ نے کہا کہ اگر کسی کھلاڑی نے پاکستان کی عزت کو نقصان پہنچایا ہے تو اسے ہرگز معاف نہیں کرنا چاہیئے۔

محمد حفیظ نے کہا کہ میچ فکسنگ کرنے والوں کو ایسی سزائیں دی جائیں کہ مستقبل میں لوگ ڈریں اور ان سزاؤں کی مثالیں دی جاتی رہیں، جب کہ انھیں کھیلنے کا دوبارہ موقع بھی نہیں دینا چاہیے۔

انھوں نے کہا کہ ملک کی نمائندگی کرنے والوں کو احساس ہونا چاہیے کہ فکسنگ ایک غلطی نہیں بلکہ ایک جرم ہے، جس سے ملک کا نام خراب ہوتا ہے۔

خیال رہے کہ پی ایس ایل کے دوران پہلے میچ کے بعد ہی فکسنگ کا معاملہ سامنے آیا تھا۔

مزید پڑھیں: پی ایس ایل فکسنگ:عرفان،شاہ زیب تحقیقات کیلئے طلب

پی سی ایل کے کھلاڑیوں شرجیل خان اور خالد لطیف پر اسپاٹ فکسنگ میں ملوث ہونے کے الزامات عائد کیے گئے تھے جس کے بعد انہیں فوری طور پر وطن واپس بھیج کر تحقیقات کا آغاز کردیا گیا تھا۔

پی سی بی کے نوٹس پر دونوں کھلاڑیوں نے الزامات کو مسترد کردیا تھا جس کے بعد پی سی بی نے تحقیقات کے لیے سابق جج کی سربراہی میں تین رکنی ٹریبیونل قائم کر دیا تھا۔

فکسنگ کے الزامات کی بناء پر پی سی بی کا اینٹی کرپشن یونٹ رواں ماہ فاسٹ باؤلر محمد عرفان اور بیٹسمین شاہ زیب حسن کو بھی چارج شیٹ جاری کرچکا ہے۔

قومی ٹیم کے سابق کپتان نے اعتراف کیا کہ پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) میں ان کی پرفارمنس اچھی نہیں تھی، تاہم ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے دوران ان کی کارکردگی اچھی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: پی ایس ایل اسپاٹ فکسنگ: تحقیقات کیلئے ٹریبونل قائم

محمد حفیظ کا کہنا تھا کہ کیریئر میں اونچ نیچ ہوتی رہتی ہیں، مگر جب وہ سمجھیں گے کہ ان کی کارکردگی اچھی نہیں ہوسکتی اور وہ مزید نہیں کھیل سکتے تو وہ کنارہ کشی کریں گے۔

سابق کپتان نے کہا کہ جس طرح وہ کسی کی جگہ آئے تھے، اسی طرح ان کی جگہ بھی کوئی نیا کھلاڑی لے گا، کیوں کہ ملک کی نمائندگی کے لیے اچھے سے اچھے کھلاڑیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے پالیسی ساز نہیں ہیں، وہ کسی بھی پالیسی میں تبدیلی نہیں لاسکتے، تاہم ایک کھلاڑی کی حیثیت سے وہ ٹیم اور کرکٹ کی بہتری کے لیے تجاویز دیتے رہتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ جب وہ ٹی ٹوئنٹی کے کپتان مقرر ہوئے تو اس وقت قومی ٹیم کی رینکنگ 9 ویں نمبر پر تھی، مگر کھلاڑیوں اور ان کی مشترکہ محنت سے ٹیم نے دوسری پوزیشن حاصل کی۔