پاکستان

اسلام آباد میں مدارس کی تعداد اسکولوں سے زیادہ

وفاقی دار الحکومت میں مدرسوں کی تعداد 374جبکہ اسکولوں کی تعداد 348 ہے۔

اسلام آباد: وفاقی حکومت پچھلے 4 برس میں نئے اسکول بنانے میں ناکام رہی ہے جبکہ اسی اثنا میں مدارس کی تعداد اسکولوں سے زیادہ ہو گئی ہے۔

ایک سروے کے مطابق وفاقی دارالحکومت میں مدارس کی تعداد 374 ہے، جن میں سے متعدد مدارس کااندراج نہیں ہے۔

وفاقی دارالحکومت کی انتظامیہ کی جانب سے کیے جانے والے سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ حکومت کا اکثر مدارس پر کوئی اثر و رسوخ نہیں ہے، جبکہ بیشتر رجسٹرڈ بھی نہیں ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ مذہبی درسگاہیں تعداد میں وفاقی دارالحکومت میں موجود اسکولوں کی تعداد سے زیادہ ہیں، مدارس کی تعداد 374 جبکہ اسکولوں کی تعداد 348 ہے، تاہم ان اسکولوں کی تعداد میں عام طور پر کالج تصور کیے جانے والے اعلی ثانوی تعلیمی ادارے شامل نہیں ہیں، ان اعلی ثانوی تعلیمی اداروں کی تعداد 43 ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ کے 23 فیصد 'غیر قانونی' مدارس بند

اسلام آباد کے نئے رہائشی سیکٹر جی-13 اور جی-14 میں کوئی بھی سرکاری اسکول نہیں جبکہ اس علاقے میں مدارس قائم ہیں۔

فیڈرل ڈائریکٹریٹ آف ایجوکیشن کے ایک اہلکار نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ہم پچھلے کچھ سال میں کوئی بھی اسکول تعمیر نہیں کرسکے۔

وفاقی دارالحکومت کی انتظامیہ کے ایک اہلکار نے کہا کہ شہر کے مختلف علاقوں میں 2013 سے اب تک کئی نئے مدارس قائم ہو چکے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ 6 مدارس جن میں سے ایک غیر قانونی ہے، پچھلے کچھ عرصہ میں قائم ہوئے ہیں۔

دینی تعلیمی داروں کے حوالے سے مزید تفصیلات بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس وقت اسلام آباد میں 4 مکاتب فکر مدارس چلارہے ہیں، جن میں دیوبند مکتبہ فکر سرفہرست ہے، اس کے ساتھ بریلوی، اہل حدیث اور اہل تشیع مکتبہ فکر کے مدارس بھی قائم ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ان 374 مدارس میں 25 ہزار سے زائد طلبا و طالبات تعلیم حاصل کر رہے ہیں، جن میں سے 12ہزار اسلام آباد جبکہ باقی طالب علم دوسرے شہروں سے تعلق رکھتے ہیں۔

مزید پڑھیں : ملک میں مدارس اور طلبا کی تعداد میں اضافہ

ملک میں آنے والی دہشتگردی کی نئی لہر کے بعد وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی ہدایت پر یہ سروے کیا گیا تھا۔

سروے دو مراحل میں کیا جارہا ہے، پہلے مرحلے میں مدارس کی قانونی حیثیت کے بارے میں معلومات جمع کی گئیں کہ کتنے مدارس رجسٹرڈ ہیں جبکہ کون سے مدارس رجسٹریشن کے بغیر قائم ہیں۔

دوسرے مرحلے میں کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) ان مدارس کی تعمیرات کے قانونی یا غیر قانونی ہونے کا تعین کرے گی اور سی ڈی اے ان مدارس کی زمین کا رقبہ، تعمیراتی پلان اور اس کی خلاف ورزی کے بارے میں بھی معلومات حاصل کرے گی۔

ذرائع کے مطابق پہلا مرحلہ ختم ہو چکا ہے جبکہ دوسرے مرحلے کا کام اختتام پر ہے، یہ بتایا گیا ہے کہ اس سروے کا مقصد 1980 سے جاری ان غیر قانونی مدارس میں اضافے کو روکنا ہے جو کہ زیادہ تر وفاقی دار الحکومت کے پسماندہ علاقے میں ہیں۔

ذرائع کے مطابق غیرقانونی مساجد بھی اسلام آباد میں موجود ہیں، مقامی انتظامیہ کی جانب سے ہدایت ملنے کے بعد ڈائریکٹر بلڈنگ کنٹرول شفیع مروت کی سربراہی میں جمعہ کو ایک اجلاس ہوا۔

اجلاس میں شریک ہونے والے ایک اہلکار نے ڈان نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ مدارس کے تعمیراتی پلان اور ان کے رقبہ کے بارے میں جانچ پڑتال کے عمل کو پورا کرنے کے لیے ٹیمیں تشکیل دے دی گئی ہیں۔

رابطہ کرنے پر ڈائریکٹر بلڈنگ کنٹرول شفیع مروت نے پلان کی معلومات کو فراہم کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ آج مدارس کے حوالے سے ایک اجلاس بلایا گیا تھا لیکن اس وقت میں آپ سے اس کی معلومات نہیں بتا سکتا۔

دوسری جانب فیڈرل ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن کے اہلکار نے بتایا کہ حکومت کا وزیر اعظم تعلیمی نظرثانی پروگرام عدم توجہ کا شکار ہے جبکہ اسلام آباد میں نئے اسکول کھولنے پر کوئی توجہ نہیں ہے، ان کے مطابق دارالحکومت میں نئے اسکول تعمیر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

تاہم وزارت کیڈ کے ایک اہلکار کے مطابق آئند سال آنے والے بجٹ میں پانچ نئے اسکولوں کی تعمیر منظور ہو چکی ہے، جن میں سے جی 13 سیکٹر میں ایک جبکہ جی 14، مارگلہ ٹاؤن اور پاکستان ٹاؤن میں ایک ایک اسکول تعمیر ہوگا۔

انہوں نے مزید کہا کہ 2014 میں منظور شدہ 5 نئے پرائمری اسکولوں کی تعمیر کے حوالے سے فنڈز حاصل کرنے کے لیے کوششیں کی جارہی ہیں۔