اس حساس نوعیت کے معاملے میں معذوروں اور خواجہ سراؤں کو نظر انداز کیا جانے والا تھا، مگر سپریم کورٹ نے ادارہ شماریات کو 16 مارچ کو احکامات دئیے کہ ان کا اندراج لازمی کیا جائے۔
عدالتی احکامات کے بعد خواجہ سراؤں کے لیے جنس کے خانہ شامل ہوا جس کو 3 کے ہندسے سے واضح کیا جانا ہے، جب کہ مرد معذوروں کو 4، خواتین معذوروں کو 5 اور معذورخواجہ سراؤں کو 6 ہندسے سے شمار کیا جائے گا۔
خواجہ سراؤں اور معذوروں کو شامل کرنے کے علاوہ بھی کئی اہم معلومات ہیں، جن کا اندراج ہونا لازمی تھا، مگر وہ شمار نہیں ہو رہیں۔
بیماریوں اور مریضوں کا اندراج
مردم شماری سے قبل ہی شعبہ صحت سے منسلک اداروں اور تنظیموں نے تجاویز بھی پیش کی تھیں کہ بیماریوں سے متعلق ڈیٹا حاصل کرنے کا بھی ایک خانہ مردم شماری میں رکھا جائے۔
محض ایک خانے رکھنے اور مردم شماری عملے کا مزید ایک منٹ اضافی خرچ ہونے سے ملک میں موجود کئی ایسی بیماریوں سے متعلق معلومات جمع ہو جائیں گی، جن سے متعلق ابھی تک صحت سے منسلک اداروں کے پاس کوئی معلومات نہیں ہے۔
ایک ہی خانے میں سرطان، شگر، ہیپاٹائٹس، دل کے امراض، موٹاپے، بلڈ پریشر، امراض چشم ، سانس اور پیٹ کی بیماریوں سمیت دیگر بڑی بیماریوں کا اندراج کیا جاتا تو پتہ چلتا کہ ملک میں کس بیماری کے کتنے مریض ہیں، اور اس حوالے سے حکومت اور متعلقہ اداروں کو کس طرح کے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
گھر کی مجموعی آمدنی اور اخراجات
مردم شماری کے فارم میں گھر میں موجود بنیادی اور ضروری اشیاء سمیت روزگار سے منسلک سوالات شامل ہیں، مگر ان سوالات سے کسی کی بھی مالی حالت کا اندازہ لگانا مشکل ہوجاتا ہے، کیوں کہ غریب اور امیر کے گھر میں بستر، ٹی وی، باورچی خانے، بیت الخلاء اور پانی کی سہولت سے فائدہ اٹھانے کے لیے نلکا لازمی ہوتا ہی ہے۔
مردم شماری کے فارم میں اگر گھر کی مجموعی آمدنی سے متعلق کوئی سوال نہ بھی رکھا جاتا تو کم سے کم یہ ضرور پوچھا جانا چاہئیے تھا کہ گھر کے زیادہ تر اخراجات کن کن کاموں میں ہوتے ہیں۔
ان سوالات سے یہ پتہ چلتا کہ لوگ اپنی آمدنی کا زیادہ تر حصہ کن امور پر خرچ کر رہے ہیں۔
یہ معلومات بھی سامنے آ جاتیں کہ لوگ اشیائے خورد و نوش پر زیادہ استعمال کر رہے ہیں، یا علاج معالجے یا پھر گھر کے کرائے ، تعلیم اور دیگر سہولیات حاصل کے لیے اخراجات ہو رہے ہیں، اس سے عوام کی رہن سہن اور زندگی سے متعلق معلومات ملنے سمیت حکومت کو پالیسی سازی میں بھی آسانی ہوتی۔
اس خانے میں یہ سوال بھی کیا جا سکتا تھا کہ گھر میں کتنے افراد کمانے والے اور کتنے بے روزگار ہیں؟
کتابوں کی تفصیل
مردم شماری کے فارم میں انٹرنیٹ اور موبائل کے استعمال جیسے سب سے بہترین اور قدرے جدید معلومات حاصل کرنے سے متعلق سوالات بھی موجود ہیں، مگر اسی خانے میں صرف ایک سوال کا اضافہ کیا جاتا تو عوام کے شعور جاننے میں مزید آسانی ہوتی۔
فارم میں ٹی وی، ریڈیو، ٹیلی فون، موبائل فون اور انٹرنیٹ کی سہولت سے متعلق سوالات تو ہیں، مگر اسی خانے میں اگر یہ سوال بھی ہوتا کہ آپ کے گھر میں غیر نصابی کتاب موجود ہیں، اگر ہیں تو ان کی تعداد 100 سے کم ہے یا اس سے زائد۔
اس سوال سے قوم کے شعور اور کتابوں سے متعلق دوستی اورسنجیدہ ذہنیت رکھنے والے افراد کی تعداد کا بھی پتہ چلتا۔
دوسرے صوبے کے مکین
اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ ہم ایک ہی ملک کے شہری ہیں، اور کسی بھی صوبے کے رہائشی کو کسی بھی دوسرے صوبے میں رہائش اختیار کرنے سے نہیں روکا جاسکتا جبکہ نہ ہی اسے یہ عمل اختیار کرنے میں کسی اجازت کی ضرورت ہے، مگر کس صوبے میں کن صوبوں کے زیادہ تر رہائشی موجود ہیں،ا س کا اندازہ لگانا لازمی ہے۔
کسی بھی صوبے میں رہائش پذیر دوسرے صوبوں کے رہائشیوں کے اندراج کا مطالبہ بظاہر 2 صوبوں یعنی سندھ اور بلوچستان کی جانب سے مختلف صورتوں میں سامنے بھی آیا، مگر ان مطالبوں کو بھی نظر انداز کردیا گیا۔
ایک صوبے میں رہائش پذیر دوسرے صوبے کے شہریوں کے اندراج کو الگ حیثیت میں شمار کرنے سے جہاں سیاسی پالیسیاں مرتب کرنے میں آسانی ہوتی، وہیں ان شہریوں کے لیے اپنے صوبے کے خصوصی انتخابی حلقے بھی بنائے جا سکتے تھے، جس طرح آزاد کشمیر کے انتخابات کے دوران ملک کے چاروں صوبوں میں خصوصی انتخابی حلقے بنائے جاتے ہیں۔
اس خانے یا سوال کا سب سے زیادہ فائدہ صوبہ سندھ کے دارالحکومت اور ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کے حالات بہتر کرنے میں ہوتا ، کراچی میں رہنے والے دیگر صوبوں کے رہائشیوں کو سہولیات فراہم کرنے یا ان کا معیار زندگی بہتر کرنے کے لیے دیگر صوبائی حکومتوں سے اس مد میں تھوڑے بہت خصوصی فنڈز لے کر کراچی کی ترقی، امن اور خوشحالی کو یقین بنایا جاسکتا تھا۔
سفر کے لیے موجود گاڑیاں
یہ بات کسی سے مخفی نہیں ہے کہ پاکستان میں لوگوں کو سفری سہولیات کے لیے بہت سی مشکلات درپیش ہیں، نہ صرف دور دراز کے دیہی اور پہاڑی علاقوں بلکہ بڑے شہر کراچی میں بھی سفری سہولیات کے لیے پبلک ٹرانسپورت کا فقدان ہے۔
اگر مردم شماری کے فارم میں یہ سوال بھی پوچھا جاتا کہ لوگ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے کے لیے کیا ذرائع استعمال کرتے ہیں، کیا کسی گھر میں گاڑی موجود ہے، اگر ہے تو گاڑی کی قسم کیا ہے، اور وہ اہل خانہ کی سفری ضروریات پوری کرتی ہے؟ تو لوگوں کی مشکلات کا اندازہ لگانے میں مزید آسانی ہوتی اور حکومت کو مستقبل میں ٹرانسپورٹ سے متعلق پالیسی مرتب کرنے میں بھی آسانی ہوتی۔
اس خانے میں یہ سوال بھی پوچھا جاسکتا تھا کہ لوگوں کو پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت حاصل کرنے کے لیے گھر سے کتنے کلو میٹر کے فاصلے پر پبلک گاڑی ملتی ہے۔
یہ معلومات بھی حاسل کی جا سکتی تھیں کہ دور دراز علاقوں میں سفری سہولیات کے لیے کیا ذرائع استعمال کیے جاتے ہیں، اور انہیں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ان چیزوں کے علاوہ بھی کئی ایسی اہم چیزیں ہوسکتی تھیں، جنہیں شمار کیا جاتا تو بہتر تھا، کیوں کہ دنیا بھر میں اس طرح کا ڈیٹا بیک وقت حاصل کیا جاتا ہے، اور پھر اس ڈیٹا کی بنیاد پر پالیسیاں مرتب دی جاتی ہیں۔