امریکا سےمیرے 'روابط' اسامہ کی ہلاکت کی وجہ بنے، حسین حقانی کادعویٰ
واشنگٹن: امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی نے دعویٰ کیا ہے کہ اوباما انتظامیہ سے ان کے 'روابط' کی وجہ سے ہی امریکا القاعدہ رہنما اسامہ بن لادن کو نشانہ بنانے اور ہلاک کرنے میں کامیاب ہوا۔
واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں حسین حقانی نے 2016 کے امریکی انتخابات سے قبل اور بعد میں ڈونلڈ ٹرمپ کے روس سے تعلقات کا دفاع کیا اور کہا کہ انھوں نے بھی 2008 کے انتخابات میں سابق صدر اوباما کی صدارتی مہم کے ارکان کے ساتھ اسی طرح کے تعلقات استوار کیے تھے۔
انھوں نے لکھا، 'ان روابط کی بناء پر ان کی بحیثیت سفیر ساڑھے 3 سالہ تعیناتی کے دوران دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان اور امریکا کے درمیان قریبی تعاون ہوا اور آخرکار امریکا کو پاکستان کی انٹیلی جنس سروس یا فوج پر انحصار کیے بغیر اسامہ بن لادن کے خاتمے میں مدد ملی'۔
حسین حقانی نے لکھا، 'اوباما کی صدارتی مہم کے دوران بننے والے دوستوں نے، '3 سال بعد ان سے پاکستان میں امریکی اسپیشل آپریشنز اور انٹیلی جنس اہلکاروں کو تعینات کرنے کے حوالے سے مدد مانگی'۔
مزید پڑھیں:امریکہ اسامہ تک کیسے پہنچا: ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ
سابق سفیر کے مطابق، 'میں نے یہ درخواست براہ راست پاکستان کی سیاسی قیادت کے سامنے رکھی، جسے منظور کرلیا گیا، اگرچہ امریکا نے آپریشن کے حوالے سے ہمیں باقاعدہ طور پر پلان سے باہر رکھا، تاہم مقامی طور پر تعینات امریکیوں کی ناکامی کے بعد سابق صدر اوباما نے پاکستان کو اطلاع دیئے بغیر نیوی سیل ٹیم 6 بھیجنے کا فیصلہ کیا'۔
اپنے مضمون میں حسین حقانی نے نومبر 2011 کو یاد کیا، جب انھیں بحیثیت سفیر مستعفیٰ ہونے کے لیے مجبور کیا گیا۔
انھوں نے لکھا، 'سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو مجھ سے ایک مسئلہ یہ تھا کہ میں نے بڑی تعداد میں سی آئی اے اہلکاروں کی پاکستان میں موجودگی میں سہولت فراہم کی، جنھوں نے پاکستانی فوج کے علم میں لائے بغیر اسامہ بن لادن کا پتہ چلایا'، ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ 'اگرچہ میں نے یہ سب کچھ پاکستان کی منتخب سویلین قیادت کے علم میں لاکر کیا تھا'۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکی عہدیداران سے ان کے تعلقات کا مقصد دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں فتح کو یقینی بنانا تھا۔
حسین حقانی نے لکھا، 'بدقسمتی سے امریکا افغانستان میں فتح حاصل نہیں کرپایا اور اسلامی عسکریت پسندوں کے حوالے سے پاکستانی حکومت کا رویہ بھی مستقل بنیادوں پر تبدیل نہ ہوسکا، تاہم جب تک میں امریکا میں سفیر میں رہا، دونوں ملکوں نے اپنے مشترکہ مقاصد کے حصول کے لیے مل کر کام کیا، جو سفارت کاری کا بنیادی جوہر ہے'۔
یہ بھی پڑھیں: 'پاکستان کو اسامہ بن لادن کی موجودگی کا علم نہیں تھا'
انھوں نے اپنے مضمون میں امریکیوں کو جاری کیے گئے ویزوں کے حوالے سے ان پر لگائے گئے الزامات کے متعلق بھی بات کی۔
حقانی نے لکھا، 'ویزہ کے معاملے پر پاکستانی میڈیا میں کچھ لوگوں کی جانب سے اٹھائے جانے والے مسائل کوئی نئے نہیں ہیں، جنھوں نے ایبٹ آباد میں کئی برسوں سے اسامہ بن لادن کی رہائش کے معاملے پر توجہ نہیں دی'۔
جب اس حوالے سے پیپلز پارٹی کے ترجمان فرحت اللہ بابر سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ ویزہ کے معاملات ماضی میں بھی اٹھائے جاتے رہے ہیں، 'امریکیوں کو ویزہ جاری کرنے کے سلسلے میں تمام قواعد اور طریقہ کار کو مدنظر رکھا گیا اور حکومت کی کسی بھی برانچ کی جانب سے کوئی شکایت نہیں کی گئی تھی'۔
فرحت اللہ بابر نے واضح کیا کہ حسین حقانی اب آزادانہ کام کرتے ہیں اور وہ پییلز پارٹی حکومت کے ترجمان نہیں تھے۔
ڈان کو کی گئی ایک ای میل میں حسین حقانی نے لکھا کہ ان کے پاس ہر امریکی عہدیدار کو جاری کیے گئے ویزہ کا ریکارڈ موجود ہے، جب وہ وہاں بحیثیت سفیر تعینات تھے، انھوں نے خبردار کیا کہ 'اگر شہریوں کی حب الوطنی کو نشانہ بنانے کے حوالے سے سازشیں جاری رہیں تو وہ اس ریکارڈ کو پبلک کردیں گے'۔
مزید پڑھیں: حسین حقانی نے ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ مسترد کردی
اپنے مضمون پر ہونے والی تنقید کے حوالے سے انھوں نے لکھا، 'یہ وقت ہے کہ امریکیوں کو ویزہ کے اجراء کے معاملے پر بحث کے بجائے اصل سوال پر توجہ مرکوز کی جائے کہ اسامہ بن لادن پاکستان میں کیوں تھا اور کس طرح امریکی انھیں تلاش کرنے میں کامیاب ہوئے جبکہ ہماری انٹیلی جنس ایجنسیاں ایسا نہیں کرسکی تھیں'۔
2 مئی 2011 کو ایبٹ آباد میں امریکی آپریشن کے نتیجے میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں نے لکھا، 'اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ کس طرح امریکیوں نے ویزے حاصل کیے بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اسامہ بن لادن نے کس طرح سے ویزہ حاصل کیا'۔
یہ خبر 13 مارچ 2017 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی