پاکستان

5 مواقع جب پاکستانی سیاستدانوں نے خواتین کی توہین کی

یہ حقیقت ہے کہ مضبوط نظریات کی حامل پراعتماد خواتین کی موجودگی متعدد حضرات کے لیے قابل برداشت نہیں ہوتی.

پاکستان میں سیاسی مخالفین کا مختلف مواقع پر دست و گریبان ہونا اور ایک دوسرے کو برا بھلا کہنا کوئی غیرمعمولی بات نہیں، لیکن گذشتہ دنوں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما مراد سعید اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی جاوید لطیف کے درمیان ہونے والے جھگڑے نے ایک بری روایت قائم کردی.

قومی اسمبلی کی کارروائی کے دوران ہونے والا یہ جھگڑا ہی کافی نہیں تھا کہ اس کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے جاوید لطیف نے مراد سعید کی بہنوں کے حوالے سے نامناسب بات کہہ کر معاملے کو مزید گھمبیر کردیا۔

اس تبصرے پر انھیں کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور جلد ہی ان کا نام سماجی روابط کی مشہور ویب سائٹ ٹوئٹر پر ٹرینڈ کرنے لگا۔

تاہم یہ کوئی پہلا موقع نہیں جب قومی اسمبلی میں خواتین کو تضحیک کا نشانہ بنایا گیا، اس سے قبل بھی ایسے بے شمار واقعات سامنے آچکے ہیں۔

1۔ بےنظیر کے شوخ رنگ ملبوسات پر کیے گئے تبصرے

سینئر صحافی نصرت جاوید کے مطابق، عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید وہ پہلے سیاستدان ہیں جنہیں خواتین سیاستدانوں سے متعلق نامناسب تبصرے کرتے دیکھا گیا۔

ڈان سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ایک مرتبہ بےنظیر بھٹو نے پاکستانی جھنڈے جیسے سبز رنگ کی قمیض کے ساتھ سفید شلوار زیب تن کی ہوئی تھی، وہ ایوان میں داخل ہوئیں جس پر شیخ رشید نے تبصرہ کیا کہ 'آپ بالکل توتے جیسی دکھائی دیتی ہیں' جس پر محترمہ بےنظیر بھٹو چپ نہ رہیں اور ایوان میں ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔

شیخ رشید نے محترمہ کی شخصیت کو دوسری بار اُس وقت تنقید کا نشانہ بنایا جب وہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں زرد رنگ کا سوٹ پہن کر تشریف لائیں، جب وہ ایوان سے باہر نکلنے لگیں تو شیخ رشید اپنی نشست سے کھڑے ہوئے اور تقریر نہ سننے پر ایسے لقب سے پکارا جسے راولپنڈی کی سڑکوں پر بہت برا تصور کیا جاتا ہے۔

اسی روز گورنر پنجاب اور محترمہ بےنظیر بھٹو کی ملاقات طے تھی، بےنظیر اسی ملاقات کے لیے جارہی تھیں، جب شیخ رشید نے انہیں تنقید کا نشانہ بنایا اور اس ملاقات میں ان کی آنکھیں سرخ دیکھی گئیں۔

اسی رات کا قصہ ہے جب شیخ رشید کو غیرقانونی اسلحہ رکھنے کے الزام میں مقدمے میں گرفتار کرلیا گیا۔

کاش کہ یہ واقعہ اپنی نوعیت کا واحد ہوتا، لیکن ایسا ہر گز نہیں۔

2بیگم مہناز رفیع کو دیا گیا 'پینگوئن' کا خطاب

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی رہنما شیریں مزاری کو 'ٹریکٹر ٹرالی' کہنے سے قبل وزیر دفاع خواجہ آصف پاکستان مسلم لیگ (ق) کی بیگم مہناز رفیع کو ان کے پیر میں لنگڑاہٹ کی وجہ سے 'پینگوئن' کا خطاب دے چکے ہیں۔

3۔ شیریں مزاری، خواجہ آصف اور ٹریکٹر ٹرالی

جون 2016 میں ہونے والا قومی اسمبلی کا اجلاس بھی خاتون سیاستدان پر ایک تبصرے کے باعث ہی مچھلی بازار میں تبدیل ہوا۔

رمضان میں لوڈشیڈنگ کے حوالے سے خواجہ آصف کے خطاب کے دوران شیریں مزاری نے احتجاج کیا۔

احتجاج کا یہ سلسلہ جاری رہا تو خواجہ آصف نے شیریں مزاری پر تنقید کا تیر برساتے ہوئے کہا کہ 'کوئی اس ٹریکٹر ٹرالی کو چپ کرائے، ان کی آواز کچھ خواتین جیسی کرے'۔

اجلاس کے عینی شاہدین کے مطابق اس موقع پر حکومتی نشستوں میں سے کسی نے شیریں مزاری کو آنٹی کہہ کر بھی پکارا۔

4۔ ماروی سرمد کو ٹی و شو میں ملنے والی دھمکیاں

جمعیت علماء اسلام کے سینیٹر حافظ حمداللہ نے ٹیلی ویژن ٹاک شو کے دوران سیاسی تجزیہ کار ماروی سرمد کو دھمکیاں دیں، گو یہ دھمکیاں لائیو نشر تو نہ ہوئیں تاہم ماروی سرمد نے اس حوالے سے فیس بک پوسٹ کرکے عوام کو آگاہ کیا کہ کس طرح حافظ حمداللہ نے ان کو گالیاں دیں اور مارنے پیٹنے کی کوشش کی۔

سینیٹر کے اس اقدام کے بعد انہیں لوگوں کی کڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تاہم کسی بھی قسم کے واقعتاً نتائج بھگتنے سے وہ محفوظ رہے۔

5۔ شیخ آفتاب اور شیریں مزاری کے درمیان ہونے والا مباحثہ

شیریں مزاری کی جانب سے اسلام آباد ایئرپورٹ کی سیکیورٹی میں اضافے کے مطالبے پر بھی کچھ ناپسندیدہ صورتحال دیکھنے کو ملی۔

شیریں مزاری کے مطالبے کا تمسخر اڑاتے ہوئے وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور شیخ آفتاب کا کہنا تھا کہ 'غیرملکی ایئرپورٹس پر تو لوگوں کے لباس اتروا کر تلاشی لی جاتی ہے، کیا وہ ایسے بین الاقوامی طریقہ کار چاہتی ہیں'، جس پر ایوان قہقہوں سے گونج اٹھا۔


یہ حقیقت ہے کہ مضبوط نظریات کی حامل پراعتماد خواتین کی موجودگی متعدد حضرات کے لیے قابل برداشت نہیں ہوتی اور ان مثالوں سے اس کا اندازہ بہ خوبی لگایا جاسکتا ہے۔

گذشتہ دنوں مراد سعید اور جاوید لطیف کے معاملے پر عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ یہ ایک شرمناک واقعہ ہے۔

خیال رہے کہ عاصمہ جہانگیر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی سابق صدر اور انسانی حقوق کے حوالے سے سرگرم کارکن ہیں، ان کا کہنا تھا کہ ایک دفعہ کسی پر جرمانہ عائد کردیا جائے تو اگلی بار کوئی اس انداز میں بات کرنے کی ہمت نہیں کرے گا۔

ایک نجی ٹیلی ویژن چینل سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ 'افسوس کا مقام ہے کہ یہ لوگ خواتین سے بات کرنے کی تمیز نہیں جانتے، کیا یہ لوگوں کے منتخب نمائندے ہیں یا احمق؟'