مصنوعی ذہانت انقلابِ ثانی یا مکمل تباہی؟
پاکستان سمیت بیشتر ایشیائی ممالک کے باشندوں کے لیے آرٹیفیشل انٹیلیجینس یا مصنوعی ذہانت فی الوقت ایک غیر معروف اور نو آموز موضوع ہے جس کی ایک بڑی وجہ ہی ہے کہ اس پر میسر زیادہ تر مواد انگریزی میں ہے۔
مقامی زبانوں میں اس پر بہت کم لکھا گیا ہے اور شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ جو لوگ اس موضوع کی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں ان کا اوڑھنا بچھونا انگلش ہے۔
بنیادی طور پر آرٹیفیشل انٹیلیجنس یا اے آئی انسانی دماغ کو مسخر کر کے اس سے کئی گنا زیادہ سوچنے، سمجھنے اور پھر عمل کر دکھانے والی مشینز تیار کرنے کی سائنس ہے۔ یہ 1960 سے دنیا بھر کے سائنس دانوں اور محققین کا پسندیدہ ترین موضوع رہا ہے، اور تقریباً نصف صدی کے اس سفر میں تیز تر تحقیق کا یہ عالم ہے کہ آج انسان مصنوعی انسانی دماغ "ایم مورٹیلیٹی ٹیکنالوجی" کی تخلیق کے منصوبے کا آغاز کر چکا ہے۔
مصنوعی ذہانت کے ذریعے سائنس اور ٹیکنالوجی کو بامِ عروج پر پہنچانے کی ایک انسانی کاوش ہے جسے آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا نام دینے والے سائنس دان جان میک کارتھی نے اس نووارد مضمون کو ایسی مشینیں بنانے کی سائنس قرار دیا جو ذہانت رکھتی ہوں۔
اسے مزید آگے بڑھاتے ہوئے اسٹوارٹ رسل اور پیٹر نوروِگ نے اس پر اپنی کتاب میں مشینوں کی جگہ پہلی دفعہ 'انٹیلیجنٹ ایجنٹس' کی اصطلاح استعمال کی، یعنی ایسے ایجنٹس جو پوری طرح اپنے ماحول کو سمجھنے اور پرکھنے کی صلاحیت کےحامل ہوں تاکہ ماحول از خود ان سے برتاؤ کر سکے، جس سے ناصرف انسان کے کام کرنے رفتار بڑھ جائے گی بلکہ آخری حد تک درست نتیجے کا حصول بھی ممکن ہوجائے گا۔
اسی لیے اے آئی کو انسانی تاریخ کا دوسرا بڑا انقلاب اور سنگِ میل قرار دیا جاتا ہے، خصوصاََ صنعتوں، کمپیوٹرز اور روبوٹکس میں اے آئی کی جدید اور منفرد تکنیکوں کی بدولت جو انقلاب رونما ہوا ہے وہ روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔
اس منفرد، حیران کن اور دلچسپ مضمون کو سمجھنے کے لیے اس کے چار بنیادی 'مکاتبِ فکر' سے واقفیت انتہائی ضروری ہے۔ پہلے طبقۂ فکر کے روحِ رواں رسل، نوروِگ اور جان ہاگلینڈ رہے ہیں جن کے مطابق اے آئی کا اصل مقصد ایسی مشینز کی تیاری ہے جو بالکل انسانوں کی طرح سوچنے اور سمجھنے کی قدرت رکھتی ہوں۔
دوسرے مکتبہءِ فکر کا لبِ لباب یہ ہے کہ اے آئی کے ذریعے مشین کو اس قبل بنایا جائے کہ وہ نا صرف پوری طرح اپنے ماحول کو سمجھتے ہوئے ردِ عمل دے سکے، بلکہ سیکنڈوں میں انسان کی حسبِ خواہش افعال بھی سر انجام دے سکے، جس کی ایک قابلِ ذکر مثال روبوٹس ہیں جو ٹیکنالوجی میں روز افزوں ترقی سے اس قابل ہو گئے ہیں کہ فوری فیصلہ کر سکیں مگر اب بھی ان کے افعال بہت حد تک 'پریڈیکٹیبل' یا قابلِ پیشگوئی ہیں۔
اس کے علاوہ کمپیوٹرز ساکن تصاویر اور ویڈیوز کے ذریعے متعلقہ شخص یا جگہ کے متعلق ویژوئل انفارمیشن فراہم کرتے ہیں یہ بھی ذہین مشینوں کی ایک جہت ہے۔
اے آئی کے تیسرے مکتبہءِ فکر کا تعلق انسانی دماغ کو تسخیر کرنے کی صلاحیت سے ہے، یعنی ایسے ماڈلز بنائے جائیں جن کے ذریعے انسانی دماغ کو سمجھا جا سکے اور یہ جانا جا سکے کہ دماغ اپنے ماحول، ارد گرد بسنے والے افراد اور روز مرہ کی ان اشیاء کو کس طرح سمجھتا ہے؟
جب کہ آخری مکتبہءِ فکر ان تکنیکوں سے متعلق ہے جن سے مشین کو اس قابل بنایا گیا ہے کہ وہ انسان سے بہتر اور کئی گنا زیادہ نتائج دے سکے۔ اس کی ایک مثال انٹرنیٹ پر میسر مختلف سرچ انجنز ہیں جن میں گوگل بازی جیت چکا ہے اور دنیا بھر میں سرچنگ کے لیے سب سے زیادہ استعمال کیا جانے والا انجن شمار کیا جاتا ہے۔ بادی النظر میں دیکھا جائے تو تیسرے اور چوتھے مکتبہءِ فکر کی تمام تر اساس ہمارا دماغ مسخر کرنے کی صلاحیت پر ہے اور بلاشبہ دماغ انسانی جسم کا پیچیدہ ترین عضو ہے جس کے افعال اور ان کے مکینیزم کو پوری طرح سمجھنا اب تک ممکن نہیں ہو سکا۔
سائنس اور ٹیکنالوجی سے لے کر سماجی اور معاشرتی سطح تک تحقیق و جستجو کے جتنے زیادہ در آرٹیفیشل انٹیلیجینس نے وا کیے ہیں، اس سے قبل بہت کم سائنسی علوم کے حصے میں آئے ہیں۔ اگرچہ میڈیا کا سارا زور ہمیشہ سے اے آئی کی ہر نئی ایجاد اور تحقیق کے منفی رخ کی ترویج کرنے پر ٹوتتا رہا ہے مگر اس حقیقت سے کسی صورت بھی انکار ممکن نہیں کہ ہماری موجودہ زندگی کو آرام دہ اور سہل بنانے میں اسے بنیادی حیثیت حاصل ہے۔
گوگل سرچ، آئی بی ایم واٹسن، جدید مہلک ہتھیاروں کی دوڑ، صنعتوں، معاشیات و سوشل میڈیا، غرض یہ کہ اب ہر جگہ اے آئی کا سکہ چلتا نظر آتا ہے۔ گذشتہ پچاس برس میں جو تمام ایجادات اور تحقیقی مواد سامنے آیا ہے وہ ایک حد تک "کمزور یا محدود ذہانت" کا حصہ تھا جیسے کہ چہرہ پہچاننا، یا انٹرنیٹ سرچ انجن، جن کے ذریعے ہم انتہائی کم وقت میں اپنے کام کو بھرپور طریقے سے سر انجام دینے کے قابل ہو گئے ہیں۔
مگر محققین کے لیے یہ پھر بھی اے آئی کی کم ترین سطح ہے کیوں کہ ان کا اصل پروگرام ٹیکنالوجی کو اس حد تک لے کر جانا ہے کہ مشین انسان کے آپریٹ کیے بغیر از خود کام سر انجام دینے کی اہلیت کی حامل ہو، جس کی ایک مثال ہیومنائڈ یا انسان نما روبوٹس ہیں جن پر 1995 سے کام کیا جارہا ہے اور اب تک ایسے لاکھوں کی تعداد میں روبوٹس متعارف کروائے جا چکے ہیں جو مشینوں کو کنٹرول کرنے کے ساتھ ساتھ کسی بھی اچانک رونما ہونے والی خرابی اور ہنگامی صورتحال سے مؤثر طریقے نمٹ سکتے ہیں۔
گذشتہ برس اس حوالے سے قابل ِذکر رہا کہ اس میں ہر طرح کے جدید روبوٹس پر کام کیا گیا جو مستقبل قریب میں آپریشن تھیٹرز سے لے کر فٹبال اور کرکٹ کے میدانوں تک دھوم مچا رہے ہوں گے، یہاں تک کہ بوڑھے افراد کے لیے تنہائی کا ساتھی اور نوجوانوں کے لیے من پسند پارٹنر جیسے روبوٹس تک کی بازگشت سنائی دیتی رہیں۔ مگر یہ حقیقت بھی روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ روبوٹس بہرحال انسان کا ہم پلہ کسی صورت نہیں ہو سکتے، کیوں کہ وہ انسان کی تخلیق ہیں جسے بشری تقاضوں سے فرار کسی طرح بھی ممکن نہیں اور انسان خود اللہ پاک کی تخلیق ہے جو احسن الخالقین ہے۔
اس کا ایک منفی پہلو یہ ہے کہ ہماری زندگی میں اے آئی کا تیزی سے بڑھتا ہوا اثر و رسوخ انسان کی اہمیت کو گھٹا کر مشین کو اس کے متبادل کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ لوگ ٹیکنالوجی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا کر اپنی ذاتی خداداد صفات پر انحصار ترک کرتے جا رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ بالفرض اگلے بیس برس یا اس سے کچھ کم عرصے میں جدید ترین تکنیکس کی بدولت سائنس دان دماغ کے کام کرنے کے طریقہءِ کار کو سمجھ کر ایک مصنوعی دماغ بنانے میں کامیاب ہو بھی جاتے ہیں اور مشین انسان کے رویوں کو پڑھنے کے قابل ہوجاتی ہے، تو آیا یہ انسانیت کے لیے ترقی کی راہ پر ایک نیا سنگِ میل ثابت ہوگا یا پھر ہمیں تباہی کے دہانے پر لیجائے گا؟
یہی اے آئی کا وہ منفی رخ ہے جس کی وضاحت اسٹیفن ہاکنگ جیسے مایہ ناز سائنسدان ایک عرصے سے کرتے چلے آرہے ہیں، یعنی سائنسدانوں کو اپنی تمام تر توجہ ایسے ذہین سسٹمز بنانے پر مرکوز رکھنی چاہیے جو انسانیت کی فلاح کے ضامن ہوں، مگر اس کے برخلاف ہماری زندگیاں ٹیکنالوجی کے جال میں روز بروز یوں جکڑتی جا رہی ہیں کہ انسانیت اور ٹیکنالوجی کا تصادم جلد یا بدیر وقوع پزیر ہونے والا ایک لازمی امر دکھائی دیتا ہے۔
صادقہ خان کوئٹہ سے تعلق رکھتی ہیں اور نیشنل سائنس ایوارڈ یافتہ سائنس رائٹر ، بلاگر اور دو سائنسی کتب کی مصنفہ ہیں۔ صادقہ آن لائن ڈیجیٹل سائنس میگزین سائنٹیا کی بانی اور ایڈیٹر بھی ہیں۔ ۔ ڈان نیوز پر سائنس اور اسپیس بیسڈ ایسٹرا نامی کے آرٹیکلز/بلاگز لکھتی ہیں۔ ان سے saadeqakhan@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں saadeqakhan@
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔