پاکستان

چکوال: 'دفتری مسائل' کے باعث اے ایس آئی کی خودکشی

اے ایس آئی نے اپنے نوٹ میں لکھا کہ ان کی کسی کے ساتھ دشمنی نہیں،کچھ دفتری مسائل نے انھیں انتہائی قدم اٹھانےپرمجبور کیا۔

چکوال پولیس کے ایک اسسٹنٹ سب انسپکٹر (اے ایس آئی) نے بظاہر دفتر میں پیش آنے والے مسائل کے باعث اپنی سرکاری کلاشنکوف سے گولی مار کر خودکشی کرلی۔

اپنے مختصر نوٹ میں مذکورہ اے ایس آئی نے لکھا، 'میری کسی کے ساتھ دشمنی نہیں ہے، لیکن کچھ دفتری مسائل نے مجھے یہ انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور کیا، مجھے نہیں سمجھ آیا کہ میں کس طرح اپنی ڈیوٹی سرانجام دوں، برائے مہربانی میرے ساتھیوں اور اہلخانہ کو پریشان نہ کیا جائے، میں گذشتہ ایک ماہ سے سو نہیں سکا اور گذشتہ 3 ماہ سے مجھے تنخواہ بھی نہیں ملی'۔

ضلع راولپنڈی کی تحصیل گجر خان کے گاؤں ترک وال کے رہائشی مذکورہ اے ایس آئی کا چند ماہ قبل ہی چکوال میں تبادلہ ہوا تھا، جہاں سے انھیں تحصیل کلر کہار کے ایک دوردراز گاؤں سرکلاں میں پولیس چیک پوسٹ کا انچارج مقرر کیا گیا۔

واضح رہے کہ سرکلاں اشتہاری ملزمان کی محفوظ پناہ گاہ کی حیثیت سے بدنام ہے۔

ایک پولیس افسر نے ڈان کو بتایا 'مذکورہ اے ایس آئی 2 وجوہات کی بناء پر سرکلاں چیک پوسٹ پر ڈیوٹی سرانجام نہیں دینا چاہتے تھے، ایک تو یہ کہ انھوں نے اپنا زیادہ تر وقت اسپیشل برانچ میں گزارا تھا اور انھیں فیلڈ ورک کا کوئی تجربہ نہیں تھا اور دوسرا وہ ایک خطرناک علاقے میں واقع چیک پوسٹ کے انچارج کی حیثیت سے خدمات سرانجام نہیں دینا چاہتے تھے'۔

مزید پڑھیں:پی اے ایف میوزیم میں اہلکار کی خودکشی

مذکورہ پولیس افسر نے بتایا کہ راولپنڈی سے چکوال تبادلے کے بعد انھیں گذشتہ 3 ماہ سے تنخواہ نہیں ملی تھی، جس کی وجہ ایک ضلع سے دوسرے ضلع میں تبادلے کے سلسلے میں کاغذی کارروائی میں تاخیر تھی۔

اے ایس آئی کے ایک قریبی دوست نے ڈان کو بتایا کہ انھوں نے چند روز قبل ایک دوست سے 10 ہزار ادھار لے کر کچھ پیسے اپنے گھر بھجوائے تھے۔

مذکورہ پولیس افسر نے بتایا، 'وہ دل کے مریض بھی تھے'۔

مرحوم نے پسماندگان میں ایک بیوی اور 4 بچے چھوڑے ہیں۔

ڈان سے بات کرتے ہوئے ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) سکندر حیات نے اے ایس آئی کی خودکشی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے ان کے اہلخانہ کی امداد کے لیے فنڈ جاری کردیا ہے، ساتھ ہی ان کا کہنا تھا، 'ان کے بچے بالکل میرے بچوں جیسے ہی ہیں'۔

یہ خبر 11 مارچ 2017 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی