ٹرمپ کا سفری پابندیوں کا نیا حکم نامہ بھی چیلنج
ہونولولو: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے گزشتہ دنوں جاری کیے جانے والے سفری پابندیوں سے متعلق نئے حکم نامے کو بھی وفاقی عدالت میں چیلنج کردیا گیا۔
امریکی خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹ کے مطابق امریکی ریاست ہوائی نے ڈونلڈ ٹرمپ کے نئے انتظامی حکم کو ہونولولو کی وفاقی عدالت میں چیلنج کردیا۔
ہوائی ڈونلڈ ٹرمپ کے نئے انتظامی حکم نامے کو عدالت میں چیلنج کرنے والی پہلی امریکی ریاست بن گئی ہے اور اس نے ٹرمپ کے پہلے صدارتی آرڈر کو بھی چیلنج کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: سفری پابندیاں : ٹرمپ کے نئے انتظامی حکم نامے میں عراق کو استثنیٰ
ہوائی کی جانب سے دائر کی جانے والے درخواست میں موقف اپنایا گیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے سفری پابندیوں سے متعلق نئے حکم نامے سے ریاست کی مسلم آبادی، سیاحت اور غیر ملکی طلبا کو نقصان پہنچے گا۔
خیال رہے کہ گزشتہ دنوں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مسلم اکثریتی ممالک کے شہریوں پر سفری پابندیاں عائد کرنے سے متعلق ترمیم شدہ انتظامی حکم نامہ جاری کیا تھا جس کا اطلاق 16 مارچ سے ہونا ہے۔
وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ نئے صدارتی حکم نامے کے مطابق عراق کے شہریوں پر امریکا کا سفر کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہوگی جبکہ امریکا کے مستقل رہائشی (گرین کارڈ ہولڈرز) اور پہلے سے قانونی ویزہ رکھنے والے بھی اس پابندی سے مستثنیٰ ہوں گے۔
وائٹ ہاؤس کا مزید کہنا تھا کہ نئے ایگزیکٹو آرڈر کے مطابق شام، ایران، لیبیا، صومالیہ، یمن اور سوڈان سے تعلق رکھنے والے شہریوں کے امریکا میں داخلے پر 90 دن کی پابندی برقرار رہے گی اور انہیں اس عرصے کے دوران امریکی ویزے جاری نہیں کیے جائیں گے۔
مزید پڑھیں: سفری پابندیوں سے متعلق ٹرمپ کا ایگزیکٹو آرڈر معطل
اب اس انتظامی حکم کو ہوائی کی جانب سے وفاقی عدالت میں چیلنج کردیا گیا ہے اور ہوائی کے اٹارنی جنرل ڈوگلس چن کا کہنا ہے کہ 'ہوائی اس معاملے پر ہمیشہ سے ہی متحرک رہا ہے اور اپنی تاریخ اور آئین میں ہمیشہ امتیازی سلوک کی مخالفت کی ہے'۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'ہوائی کے 20 فیصد افراد وہ ہیں جو بیرون ملک پیدا ہوئے، ایک لاکھ افراد ایسے ہیں جو امریکی شہری نہیں، اور 20 فیصد افرادی قوت بھی غیر ملکی ہے'۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ریاست ہوائی امریکی انتظامیہ کے خلاف دائر کیے جانے والے اس مقدمے کی قانونی معاونت کے لیے ایک بیرونی لاء کمپنی پر دیڑھ لاکھ ڈالر خرچ کررہی ہے۔
اس سلسلے میں یو ایس ڈسٹرکٹ جج ڈیرک واٹسن نے ریاست ہوائی کی درخواست قبول کرلی ہے اور اس سلسلے میں سماعت 15 مارچ کو رکھی گئی ہے۔
امریکی محکمہ انصاف نے اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔
خیال رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے سفری پابندیوں سے متعلق پہلے حکم نامے کو بھی 4 فروری کو امریکا کی وفاقی عدالت نے ریاست واشنگٹن اور منی سوٹا کی جانب سے دائر درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے معطل کردیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: 7 مسلمان ممالک کے شہریوں کے امریکا میں داخلے پر پابندی
ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ماہ 28 جنوری کو جو پابندیوں کا پہلا ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا تھا اس میں امریکا میں تارکین وطن کے داخلے کے پروگرام کو 120 دن (یعنی 4 ماہ) کے لیے معطل کردیا گیاتھا، جب کہ ایران، عراق، شام، لیبیا، صومالیہ، سوڈان اور یمن کے شہریوں پر بھی 90 دن (یعنی 3 ماہ) تک امریکا کے ویزوں کے اجراء پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔
ان کے اس حکم نامے کے خلاف امریکا سمیت دنیا بھر میں مظاہرے ہوئے تھے اور بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں سمیت ان ممالک نے بھی شدید خدشات ظاہر کیے تھے جن کے نام پابندی کی فہرست میں شامل تھے۔