پیپلز پارٹی فوجی عدالتوں کی 2 سالہ توسیع پر رضامند: وزیر قانون
اسلام آباد: حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ پارلیمانی جماعتوں کے اجلاس میں پاکستان پیپلز پارٹی فوجی عدالتوں کی مدت میں دو سالہ توسیع کی حمایت پر آمادہ ہوگئی ہے۔
اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی سربراہی میں ہونے والے پارلیمانی جماعتوں کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے کہا کہ 'پیپلز پارٹی فوجی عدالتوں کی 2 سالہ توسیع پر راضی ہوگئی ہے'۔
اجلاس میں شریک تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے بھی کہا کہ 'پیپلز پارٹی نے 28 فروری کو تمام سیاسی جماعتوں کے اجلاس کے دوران فوجی عدالتوں سے متعلق ہونے والے فیصلے کو قبول کرتے ہوئے اپنی تجاویز واپس لے لیں ہیں'۔
یہ بھی پڑھیں: فوجی عدالتوں کے معاملے پر پیپلز پارٹی کی اے پی سی بے نتیجہ
اجلاس میں اعتزاز احسن، تاج حیدر، فاروق نائیک، شاہ محمود قریشی، شیریں مزاری، اسحاق ڈار، زاہد حامد، جام کمال، میر حاصل بزنجو، آفتاب شیر پاو، نعیمہ کشور، اکرم درانی، صاحبزادہ طارق اللہ، شاہ جی گل آفریدی، غلام بلو، اعجازالحق، سینیٹر الیاس بلور، شیخ رشید، مشاہد حسین سید، اعظم سواتی، سینیٹر ہدایت اللہ، فاروق ستار، شیخ صلاح الدین بھی شریک ہوئے۔
ڈان نیوز کے مطابق اجلاس کے دوران پیپلز پارٹی کی 9 میں سے صرف 2 تجاویز کو منظور کیا گیا،جن میں ملزم کو منصفانہ ٹرائل کے لیے پسند کا وکیل کرنے کا حق دینے اور’قانون شہادت 1984‘ کی شقوں کو فوجی عدالتوں کے بل میں شامل کرنا ہیں۔
خیال رہے کہ اس سے قبل گزشتہ ماہ 28 فروری کو پیپلز پارٹی کے علاوہ ملک کی دیگر تمام بڑی جماعتیں فوجی عدالتوں کی 2 سالہ توسیع پر متفق ہوچکی تھیں، جب کہ اس اجلاس میں پیپلز پارٹی نے شرکت نہیں کی تھی۔
بعد ازاں عدالتوں کی مدت میں توسیع کے حوالے سے اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے پیپلز پارٹی نے 4 مارچ کو آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) طلب کی تھی، جس میں بھی کوئی اتفاق نہیں کیا جا سکا تھا۔
پیپلز پارٹی نے فوجی عدالتوں میں توسیع پراتفاق کے لیے 6 مارچ کو حکومت کو اپنی 9 تجاویز پیش کی تھیں جو درج ذیل ہیں۔
1۔ فوجی عدالتوں کا سربراہ ملٹری افسر کے ساتھ سیشن جج یا ایڈیشنل سیشن جج بھی ہونا چاہیے۔
2۔ سیشن جج یا ایڈیشنل سیشن جج کو متعلقہ چیف جسٹس نامزد کریں گے۔
3۔ فوجی عدالتوں کو ایک سال کے لیے توسیع دی جائے۔
4۔ آرٹیکل 199 کے تحت فوجی عدالتوں کے فیصلوں پر ہائی کورٹ کو نظرثانی کا اختیار ہوگا۔
5۔ ہائی کورٹ 60 روز میں کیس کا فیصلہ سنانے کی پابند ہونی چاہیئیں۔
6۔ گرفتار افراد کو 24 گھنٹے میں عدالت میں پیش کیا جائے۔
7۔ ملزم کو کن الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا یہ بھی 24 گھنٹے میں بتایا جائے۔
8۔ ملزم کو منصفانہ ٹرائل کے لیے پسند کا وکیل کرنے کا حق دیا جائے گا۔
9۔ ملزم پر ’قانون شہادت 1984‘ کی شقوں کا اطلاق ہوگا۔
پیپلز پارٹی کی ان 9 تجاویز پر آج پارلیمانی جماعتوں کی خصوصی کمیٹی کے اجلاس میں غور کیا گیا۔
خیال رہے کہ فوجی عدالتوں کی 2 سالہ خصوصی مدت رواں برس 7 جنوری کو ختم ہوگئی تھی، جس کے بعد فوجی عدالتوں کی بحالی پر سیاسی جماعتوں اور حکومت کے درمیان اتفاق نہیں کیا جاسکا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: پارلیمانی رہنما فوجی عدالتوں کو مزید 2 سال توسیع دینے پر متفق
فوجی عدالتوں کا قیام 16 دسمبر 2014 کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) پر حملے کے بعد آئین میں 21 ویں ترمیم کرکے عمل میں لایا گیا تھا۔
عدالتوں کا قیام 7 جنوری 2015 کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بل کی منظوری کے بعد عمل میں لایا گیا، جن کی 2 سالہ مدت رواں برس 7 جنوری کو ختم ہوچکی ہے۔
گزشتہ 2 ماہ کے دوران فوجی عدالتوں کی دوبارہ بحالی سے متعلق حکومت اور اپوزیشن جماعتوں میں متعدد بار مذاکرات ہوئے، جن میں فوجی عدالتوں کی دوبارہ بحالی پر اتفاق نہیں کیا جاسکا۔