پاکستان

'ملک کی 84 فیصد آبادی پینے کےصاف پانی سے محروم'

گذشتہ 4 سال کے دوران پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے منصوبوں پر 279 ارب روپے خرچ کیے جاچکے ہیں، وزیر سائنس و ٹیکنالوجی

اسلام آباد: سینیٹ میں پیش کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی 84 فیصد آبادی کو پینے کے صاف پانی تک رسائی حاصل نہیں جبکہ ملک کے متعدد کمرشل بینک گذشتہ تین سال کے دوران 475 ارب روپے غیرمتوقع اضافہ منافع حاصل کرچکے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق تحقیقاتی کونسل برائے آبی وسائل پاکستان (پی سی آر ڈبلیو آر) کی ایک تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے وزیرِ سائنس و ٹیکنالوجی رانا تنویر حسین کا کہنا تھا کہ ملک میں پانی کی سپلائی کرنے والے 72 فیصد منصوبے فعال ہیں اور ان میں سے 84 فیصد منصوبوں سے فراہم ہونے والا پانے پینے کے قابل نہیں۔

وزیر سائنس و ٹیکنالوجی کے مطابق سندھ اور پنجاب کو 14 فیصد پانی کی سپلائی میں آرسینک (سنکھیا) کی بھاری مقدار سامنے آئی جو اس کی مقررہ حد سے کہیں زیادہ تھی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ گذشتہ 4 سال کے دوران پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے منصوبوں پر 279 ارب روپے خرچ کیے جاچکے ہیں۔

مزید پڑھیں: پاکستان پانی کی قلت کا شکار ملک بن رہا ہے، ماہرین

خیال رہے کہ اس منصوبے کے تحت آبی وسائل کونسل کی جانب سے پانی کی جانچ کے لیے 6 مقامی لیبارٹریاں کو اپ گریڈ کیا گیا ہے جبکہ ضلعی سطح پر 17 نئی لیبارٹریاں قائم کی گئی ہیں جو پانی کی کوالٹی پر نظر رکھتی ہیں۔

رانا تنویر حسین کے مطابق پانی کی سپلائی کرنے والی ایجنسیوں سے وابستہ 3 ہزار پیشہ ورانہ افراد کی تربیت کے لیے بھی فنڈز استعمال کیے جارہے ہیں۔

دوسری جانب وزیر قانون زاہد حامد نے سینیٹ کو بتایا کہ گذشتہ 3 سال کے دوران ملک کے کمرشل بینک 472 ارب روپے سے زائد منافع حاصل کرچکے ہیں۔

قانون سازوں کو فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق تین سالوں کے دوران منافع میں واضح اضافہ سامنے آیا ہے، 2013 میں منافع 115 ارب روپے رہا، 2014 میں 164 ارب روپے، جبکہ 2015 میں منافع کی حد 193 ارب روپے کو چھوگئی۔

ان اعداد و شمار کے مطابق تین سالوں میں کمرشل بینک کے کل منافع میں سے 4 بینکوں کا منافع 270 ارب روپے سے زائد تھا جس میں 88 ارب روپے کے ساتھ حبیب بینک لمیٹڈ سرفہرست، 71 ارب کے ساتھ مسلم کمرشل بینک دوسرے نمبر پر، یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ 66 ارب روپے کے ساتھ تیسرے، جبکہ الائیڈ بینک لمیٹڈ 44 ارب کے ساتھ چوتھے نمبر پر رہا۔

جبکہ ان تین سالوں کے دوران نقصان اٹھانے والے بینکوں میں صرف فرسٹ وومن بینک اور ایس ایم ای کے نام سامنے آئے ہیں۔