پاکستان

سرحد بند کرنے سے دہشتگردی نہیں روکی جا سکتی: شیریں مزاری

آج آپریشن رد الفساد کیا جارہا ہے، جن پالیسیوں کی وجہ سے خطہ دارالفساد بنا وه ختم کی جارہی ہیں یا نہیں، ارکان اسمبلی

اسلام آباد: ارکان قومی اسمبلی نے خارجہ پالیسی کا ازسرنو جائزہ لینے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ پڑوسی ملک افغانستان کے ساتھ تعلقات کی خرابی خارجہ پالیسی پر سوالیہ نشان ہے۔

قومی اسمبلی میں خارجہ پالیسی پر بحث کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی کی شاہدہ رحمانی نے تحریک پیش کی اور کہا کہ ہماری خارجہ پالیسی کہیں بھی کامیاب نظر نہیں آرہی، پاک-ایران گیس پائپ لائن معاہدہ بھی کمیشنز کی نذر ہوگیا اور امریکا کے ساتھ بھی تعلقات سرد مہری کاشکار ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پاک-چین اقتصادی راہداری منصوبہ (سی پیک) ایک اچھا پراجیکٹ ہے، لیکن ہر مسئلے کو اس کے ساتھ جوڑنا کہاں کی عقلمندی ہے؟ ساتھ ہی انھوں نے سوال کیا کہ بھارت عرب ممالک کے ساتھ تعلقات استوار کر رہا ہے اور ہم کہاں کھڑے ہیں؟

جمعیت علمائے اسلام (ف) کی نعیمہ کشور نے سوال کیا کہ ہماری خارجہ پالیسی کیا ہے اور کون بناتا ہے؟ ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ آج ہمارا سب سے زیاده محفوظ بارڈر پاک-افغان سرحد بھی کیوں غیر محفوظ ہے؟

مزید پڑھیں: پاک ۔ افغان طورخم گیٹ غیر معینہ مدت کیلئے بند

نعیمہ کشور نے مزید کہا کہ آج ملک میں آپریشن رد الفساد شروع کیا جارہا ہے، یہ بتایا جائے کہ جن پالیسیوں کی وجہ سے خطہ دارالفساد بنا وه ختم کی جارہی ہیں یا نہیں۔

بحث میں حصہ لیتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی رکن اسمبلی شیریں مزاری نے کہا کہ پاک افغان سرحد بند کرنے سے دہشت گردی نہیں روکی جا سکتی، اگر ایسا ہوتا ہے تو واہگہ بارڈر بھی بند کر دیا جائے۔

اسمبلی میں خارجہ پالیسی پر بحث سمیٹتے ہوئے وفاقی وزیر سیفران عبدالقادر بلوچ نے بتایا کہ پاک-افغان سرحد 2 روز کے لیے کھولی گئی ہے، تاہم افغانستان سے بات چیت جاری ہے اور ممکن ہے کہ سرحد 2 دن سے زیادہ کے لیے کھول دی جائے۔

پڑوسی ملک سے کشیدہ تعلقات کے حوالے سے عبدالقادر بلوچ نے کہا کہ بدقسمتی سے افغانستان کے ساتھ ہمارے تعلقات کبھی ٹھیک نہیں رہے، افغانستان کی پالیسیاں ہمیشہ بھارت نواز رہی ہیں اور ہماری دونوں جنگوں کے دوران افغانستان نے بھارت کی حمایت کی۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان کراسنگ پوائنٹس کھولے: افغانستان کی 'درخواست'

انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے افغانستان سے تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کی، ہم آج بھی 30 لاکھ افغان مہاجرین کی مہمان نوازی کر رہے ہیں، لیکن اگر افغانستان بھارتی ڈکٹیشن کے مطابق ہم سے تعلقات چاہتا ہے تو ہم اس کے لیے تیار نہیں۔

وزیر سیفران کا کہنا تھا کہ افغانستان کے ساتھ سرحد بند کرنے کی ٹھوس وجوہات ہیں، جس کا مقصد افغانستان پر دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے لیے دباؤ ڈالنا ہے۔

مزید پڑھیں:'دہشتگرد پھر افغانستان میں منظم ہورہے ہیں'

انھوں نے بتایا کہ افغانستان اور بھارت کی ایجنسیاں پاکستان میں دہشت گردی کرنے والی جماعت الاحرار کی سرپرستی کر رہی ہیں۔

لیفٹیننٹ خاور شہید سمیت دیگر شہداء کا تذکرہ کرتے ہوئے انھوں نے سوال کیا کہ آخر ہم کب تک لاشیں اٹھاتے رہیں گے؟

عبدالقادر بلوچ کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کا امن ایک دوسرے سے وابستہ ہے، ہمیں افغانستان کی منت سماجت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔