کھیل

کرکٹ کے جنون سے دہشت گردی کو شکست

دہشت گردی کے پے درپے واقعات بھ شائقین کرکٹ کو پی ایس ایل فائنل دیکھنے کیلئے قذافی اسٹیڈیم کا رخ کرنے سے نہ روک سکے۔

گزشتہ ماہ رونما ہونے والے دہشت گردی کے پے درپے واقعات کے سبب کیے گئے سخت سیکیورٹی اقدامات بھی کرکٹ کی کمی کے شکار شائقین کو 25 ہزار افراد کی گنجائش کے حامل لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں اتوار کو پشاور زلمی اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے درمیان ہونے والے پاکستان سپر لیگ کے فائنل میں آنے سے نہ روک سکے۔

پشاور کے 25 سالہ شائق محمد افضل نے مسکراتے ہوئے کہا کہ اگر ہمیں ایک درجن سیکیورٹی چیک پوائنٹس کو بھی عبور کرنا پڑتا تو بھی ہم برا نہیں مناتے۔

اسٹیڈیم کے باہر ایک شخص سبز رنگ کا لباس اور پگڑی زیب تن کیے قومی پرچم تھامے کھڑا ہے— فوٹو: رائٹرز

میچ کے آغاز سے کئی گھنٹے قبل ہی اسٹیڈیم میں آنے والے 18 سالہ طالب علم افتخار احمد نے کہا تھا کہ یہ کسی کی جیت یا ہار کا مسئلہ نہیں، یہ پاکستان کیلئے بڑا دن ہے کیونکہ ہم دنیا کو دکھانا چاہتے ہیں کہ ہم بھی انٹرنیشنل میچوں کی میزبانی کر سکتے ہیں۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کی ایگزیکٹیو کمیٹی کے سربراہ اور پی ایس ایل کے چیئرمین نجم سیٹھی نے کہا کہ وہ پی ایس ایل فائنل کو پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی کا نقطہ آغاز سمجھتے ہیں۔

اسٹیڈیم میں موجود شائقین اپنے عزم سے دہشت گردی سے مکمل لاتعلقی کا اعلان کر رہے ہیں— فوٹو: اے ایف پی

آسٹریلیا، سری لنکا، انگلینڈ اور بنگلہ دیش سے سیکیورٹی آفیشلز سمیت حفاظتی اقدامات کی نگرانی اور جانچ کیلئے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے نمائندے بھی بذات خود موجود تھے۔

اعلیٰ معیاری سیکیورٹی اقدامات کے طور پر ٹیموں کے ہوٹل کے راستوں اور اسٹیڈیم کے اطراف میں فوجی اور پولیس اہلکاروں سمیت ہزاروں سیکیورٹی آفیشلز کو تعینات کیا گیا تھا۔

قذافی اسٹیڈیم کے باپر قانون نافذ کرنے والے ادارے کا اہلکار چوکس کھڑا ہے— فوٹو: اے پی

ایک ٹوئٹ میں آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل آصف شکور نے کہا کہ کھیل ان کو فروغ دے رہا ہے۔

دونوں ٹیموں کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل نے میچ میں شرکت کے لیے آنے والے غیر ملکی کھلاڑیوں اور میچ دیکھنے کے لیے پاکستان آنے والے غیر ملکی مہمانوں کا خیرمقدم کیا۔

سیکیورٹی خدشات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کرکٹ کے متوالے شائقین نے ملک میں ہوم گراؤنڈ پر ہونے والے کرکٹ میچ کے موقع سے ہاتھوں ہاتھ فائدہ اٹھایا۔

اسٹیڈیم کے قریب اپنے اہلخانہ کے ہمراہ کھانے کیلئے آئی ہوئی 48 سالہ اسکول ٹیچر ملیحہ رضوی نے کہا کہ گزشتہ کئی ہفتوں سے ہم دہشت گردی کے خطرات کی وجہ سے ریسٹورنٹ نہیں جا رہے تھے لیکن پی ایس ایل فائنل کے جوش و خروش اور جشن نے ہمیں بھی گھر سے باہر نکلنے پر مجبور کردیا۔

سیکیورٹی کے زمینی انتظامات کے ساتھ ساتھ فضائی نگرانی بھی کی جاتی رہی— فوٹو: اے ایف پی

انہوں نے کہا کہ ہمارا خیال ہے کہ اس ایونٹ نے دہشت گردی کو شکست دے دی۔

قذافی اسٹیڈیم کے سامنے اس شاندار ایونٹ کا ماحول اور جوش واضح تھا۔ عوام تالیاں بجا کر قومی نغمے گنگنانے کے ساتھ ساتھ ڈانس بھی کر رہے تھے اور تمام ہی لوگ بغیر کسی شکایت کے صبر کا دامن تھامے فائنل میچ کے منتظر تھے۔

جیسے ہی مقررہ پارکنگ میں خصوصی شٹل بسیں شائقین کو اسٹیڈیم تک لے جانے کیلئے پہنچیں، تمام ہی عمر کے خواتین و حضرات میچ کے مقام تک جلد از جلد پہنچنے کیلئے جوق در جوق بسوں میں سوار ہونے لگے۔ تاہم اس سب کے باوجود رہ جانے والے حضرات بھی بنا کسی شکایت کے پارکنگ میں اپنی باری آنے کا انتظار کر رہے تھے۔

اسٹیڈیم میں موجود شائقین سیلفی لیتے ہوئے— فوٹو: اے ایف پی

میچ سے قبل پورے شہر کو دلہن کی طرح سجا دیا گیا تھا۔ لاہور میونسپل کارپوریشن نے تمام اہم شاہراہو کی گرین بیلٹ خصوصاً کینال روڈ کے دونوں جانب برقی قمقموں سے چراغاں کیا ہوا تھا۔

لاہور میونسپل کارپوریشن کے ترجمان نے بتایا کہ اس کی وجہ محض شہر کو سجانا نہیں بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد کرنابھی ہے تاکہ وہ لوگوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھ سکیں۔

شٹل بس سروس پکڑنے کیلئے برکت مارکیٹ پارکنگ کی جانب رواں دواں لاہور گرامر اسکول کے ایک طالبعلم احمد اقبال نے بتایا کہ یہ ایک عید کا موقع لگ رہا تھا جو ہم ہر سال مناتے ہیں۔ میں بہت خوش ہوں کہ میرے والدین نے مجھے میچ دیکھنے کیلئے جانے کی اجازت دی۔

اپنی پسندیدہ ٹیموں کی شرٹیں زیب تن کیے نوجوانوں کے جوش و خروش کا اندازہ ان کی جانب سے لگائے جانے والے نعروں سے لگایا جا سکتا تھا۔ عون رضا نے کہا کہ میں پشاور زلمی کو سپورٹ کر رہا ہوں ۔۔۔ وہ یقیناً جیتے گی لیکن اگلے ہی لمحے ساتھ ہی کھڑے ڈاکٹر شرجیل احمد نے ان کی نفی کرتے ہوئے نعرہ لگایا نہیں نہیں، یقیناً کوئٹہ گلیڈی ایٹرز ہی جیتے گی، میں ان کو سپورٹ کر رہا ہوں‘۔

اپنے پانچ دوستوں کے ہمراہ زلمی، زلمی، زلمی کے نعرے لگانے والے اعزاز نے کہا کہ ’میں زلمی کو پسند کرتا ہوں ۔۔۔ یہ ایک مضبوط ٹیم ہے‘۔شائقین میں موجود عوام میں بڑی تعداد ملک کیلئے بھی نعرے لگا رہی تھی۔ میچ دیکھنے کیلئے آنے والے ان کے اطراف میں موجود تمام ہی لوگ یکجہتی اور بھائی چارے کے احساس سے مغلوب نظر آتے تھے۔

بس میں سوار ہونے کیلئے اپنی باری کا انتظار کرنے والے کامران صدیقی نے کہا کہ میں یہاں محفوظ محسوس کر رہا ہوں کیونکہ یہاں اطراف میں کئی پولیس آفیشلز ہماری جان کی حفاظت کیلئے موجود ہیں۔ ہم یہاں صرف قومی اور انٹرنیشنل کھلاڑیوں کو سپورٹ کرنے کیلئے دیکھنے نہیں آئے بلکہ ساتھ ساتھ ان کی سپورٹ کرنے بھی آئے جنہوں نے پرخطر حالات اور بیش بہا خطرات کے باوجود اس ایونٹ کا انعقاد یقینی بنایا۔ انہوں نے مزید کہا کہ پولیس آفیشلز کا رویہ بھی بہت شاندار ہے۔

پارکنگ کی جانب جاتے ہوئے قومی نغمے پر اپنے دوستوں کے ہمراہ ڈانس کرنے والے ایک طالبعلم فہیم چوہدری نے کہا کہ کئی سالوں کے بعد آج کے مناظر اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ بالآخر ہم دہشت گردی کو شکست دینے میں کامیاب ہو گئے۔ میں دہشت گردی سے نفرت کرتا ہوں اور حکومت کو بہرصورت اس کا خاتمہ کرنا چاہیے۔

پاکستان سپر لیگ کے دوسرے ایڈیشن کی چیمپیئن پشاور زلمی کی ٹیم ایونٹ کی ٹرافی کے ہمراہ— فوٹو: اے ایف پی

انہوں نے کہا کہ اب انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کا وقت آ چکا ہے جو 2009 میں سری لنکن ٹیم پر دہشت گرد حملے کے بعد رک گئی تھی۔برکت مارکیٹ ٹریفک سگنل سے اسٹیڈیم کی جانب رواں دواں ایک نیوز ایجنسی کے سینئر صحافی قیوم زاہد نے کہا کہ کئی سالوں کے بعد میں نے اس طرح کی سرگرمی دیکھی ہے جس میں عوام نے بھرپور جوش و جذبے، جرات اور عزم کے ساتھ شرکت کی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ قریب ہے۔

میچ دیکھنے کیلئے آنے والے ایک اور شائق شجاعت انور نے لاہور کے عوام کیلئے اس بہترین میچ کے کامیابی سے انعقاد پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ لوگوں کا جوش و خروس اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ہم دہشت گردی کے خلاف متحد ہیں۔ میں پولیس، فوج دیگر تمام چاہے وہ حکومت کا حصہ ہیں یا نہیں، سب کو خوف و دہشت کے اس ماحول کو میلے کے ماحول میں بدلنے پر سلام پیش کرتا ہوں۔