پاکستان

غیرت کے نام پر تشدد، متاثرہ خواتین خوف کا شکار

خواتین پر تشدد کے واقعات منظر عام پر نہیں آپاتے، زیادہ تر حملہ آور متاثرین کے قریبی رشتے دار ہوتےہیں، سماجی کارکن

21 سالہ صبا قیصر پر پہلے اس کے والد اور چچا نے فائرنگ کی، پھر اس کو کمبل میں لپیٹ کر دریا میں پھینک دیا، صبا کا قصور یہ تھا کہ اس نے 3 سال قبل پسند کی شادی کی تھی۔

والد اور چچا کی فائرنگ کو جھیلنے والی صبا قیصر کا تعلق پنجاب سے ہے، اس 21 سالہ لڑکی کی جان کو ایک بار پھر خطرہ ہے۔

اسلام آباد سے 225 کلومیٹر مسافت پر واقع شہر گجرانوالہ کی رہائشی نے حملہ برداشت کرنے کے بعد تہیہ کرلیا تھا کہ وہ ان افراد کو قانون کے کٹہرے میں ضرور لائے گی۔

ایسی قوم میں جہاں ہر سال سیکڑوں مرد و خواتین اپنے گھر والوں کے ہاتھوں غیرت کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں وہاں ایسا سوچ رکھنا ایک غیر معمولی اقدام تھا۔

گو کہ صبا کے والد اور چاچا گرفتار کرکے جیل بھیجے جاچکے تھے لیکن اس پر اس بات کا مسلسل دباؤ تھا کہ وہ ان کو معاف کردے، قانون کے مطابق اہل خانہ کی معافی کے بعد رہائی مل جاتی ہے ۔

کیس ٹرائل پر نہ جاسکا تو دونوں افراد دو مہینے جیل میں گزارنے کے بعد رہا ہوگئے۔

صبا قیصر کا کہنا تھا کہ 'حالانکہ میں عدالت کو بتا چکی تھی میں ان دونوں افراد کو معاف کرچکی ہوں لیکن ایسا میں نے دل سے بالکل نہیں کہا تھا'۔

اسی صبا کی کہانی پر فلم ساز شرمین عبید چنائے نے 2016 میں آسکر ایوارڈ جیتنے والی دستاویزی فلم 'آ گرل ان دا ریور: دا پرائس آف فارگیونیس' بنائی۔

متاثرہ صبا کہتی ہے ان کے چاچا وہ 'بے عزتی' نہیں بھولے جو ان کے خیال سے میری وجہ سے خاندان کو برداشت کرنی پڑی، جب انہوں نے گذشتہ سال شرمین عبید چنائے کی فلم کا ٹریلر دیکھا تو وہ بہت غصے میں آ گئے۔

صبا مزید بتاتی ہیں کہ وہ اسی رات میرے گھر آئے، مجھے بلا کر انہوں نے اپنی پستول سے گولیاں فائر کرنا شروع کر دیں، میں خوش قسمت تھی جو اس حملے میں زندہ بچ گئی۔

پچھلے حملے کے باعث قیصر کے چہرے پر منہ سے لے کر پیشانی تک پڑنے والا نشان اب بھی موجود تھا۔

مزید پڑھیں: پارلیمنٹ سے غیرت کے نام پر قتل، انسداد عصمت دری بل منظور

اپریل 2016 میں دوسرے حملے کے بعد صبا کے والد اور چاچا کو ایک بار پھر گرفتار کرلیا گیا، ان دونوں افراد کا رواں ماہ کے آخر میں رہائی کا امکان ہے جس کی وجہ صبا کی جانب سے ان کے خلاف الزامات واپس لے لینا ہے۔

خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے مطابق یہ کیس اس طرح کے جرائم پر قانونی معاونت کی راہ میں حائل رکاوٹوں کی نشاندہی کرتا ہے، باوجود اس کے کہ 'غیرت کے نام پر قتل' کے حوالے سے نئی قانون سازی کی جاچکی ہے۔

خیال رہے کہ یہ نیا قانون سوشل میڈیا کے ذریعے شہرت حاصل کرنےوالی قندیل بلوچ کے اپنے بھائی کےہاتھوں قتل کے بعد گذشتہ سال اکتوبر میں پاس ہوا تھا۔

اس قانون کے تحت اب بھی متاثر ہونے والے افراد کے اہل خانہ کو معاف کرنے کا اختیار حاصل رہتا ہے لیکن صرف ان کیسز میں جن میں مجرمان کو موت کی سزا سنائی جا چکی ہو، جبکہ معافی حاصل ہونے کے بعد بھی حملہ آور کو عمر قید کی سزا پوری کرنی پڑتی ہے۔

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والوں کے مطابق غیرت کے نام پر تشدد کے واقعات اسی لیے منظر عام پر نہیں آتے کیونکہ زیادہ تر حملہ آور متاثرہ شخص کے قریبی رشتے دار یا عموماً اہل خانہ ہی میں سے کوئی ہوتا ہے۔

قریبی تعلقات

حملے کے بعد صبا کی والدہ کو ان کے شوہر نے صبا سے ملنے سے منع کردیا تھا جبکہ اپنی بیٹی سے 175 کلومیٹر دور دوسرے شہر، سرگودھا جانے پر مجبور کیا۔

صبا کی والدہ جیل میں موجود اپنے شہر سے ہر ہفتے ملاقات کرنے کے بعد چپکے سے اپنی بیٹی سے ملنے گجرانوالہ بھی چلی جاتیں۔

مزید پڑھیں: 'غیرت کے نام پر قتل غیر اسلامی اور گناہ کبیرہ '

وہ کہتی ہیں کہ میرے شوہر بیٹی سے غصہ نہیں، لیکن ان کے شوہر کا بھائی بار بار مشتعل کرتا ہے مگر جب میرے شوہر جیل سے رہا ہوجائیں گے تو ہم ان کے بھائی سے تمام تعلقات ختم کر دیں گے۔

لیکن صبا کو ڈر ہے کہ یہ معاملہ یہاں ختم نہیں ہوگا۔

صبا اپنے شوہر اور دو بچوں کے ساتھ رہائش پذیر ہے، برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز سے بات کرتے ہوئے اپنے والد کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ وہ مجھ پر مزید غصہ ہوں گے اور دوسری بار جیل بھیجنے کی وجہ سے مجھے نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے۔

اپنے دو سالہ بیٹے کو گود میں اٹھائے صبا کا مزید کہنا تھا کہ اسے وہ رات اچھی طرح یاد ہے، جب اس پر حملہ ہوا، اس کے والد اور چاچا قرآن مجید کی قسمیں کھا کر کہہ رہے تھے کہ وہ اسے نقصان نہیں پہنچائیں گے۔

یہ بات جاننے کے بعد کہ صبا ان کی مرضی کے بغیر شادی کررہی ہے اس کے والد اور چاچا شادی کے روز ہی سسرال والوں کے گھر پہنچے اور مجبور کیا کہ وہ واپس چلے، جس کے بعد صبا کو حملہ کرکے مرنے کے لیے دریا میں پھینک دیا گیا۔

صبا کا کہنا تھا کہ 'میں حملے کے بعد بےہوش نہیں ہوئی تھی، پانی میں جانے کے بعد میں نے جھاڑیوں کو پکڑ لیا اور باہر آنے میں کامیاب ہوگئی'۔

انہوں نے مزید یاد کرتے ہوئے بتایا کہ 'میں نے سڑک پر چلنا شروع کردیا اور ایک پٹرول پمپ تک پہنچ گئی یہاں لوگوں نے مجھے زخمی حالت میں دیکھ کر ایمبولینس بلوائی'۔

معافی پر مجبور کردیا جانا

خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے وومن ان اسٹرگل فار امپاور منٹ (وائس) کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر بشریٰ خالق کے مطابق صبا شاید اس وقت تک محفوظ ہے جب تک اس کے والد اور چاچا گرفتار رہیں۔

صبا کا خیال ہے کہ رہائی کے بعد گرفتاری کا بدلہ بھی لیا جاسکتا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ممکن ہے کہ میرے بھائی یا گھر کا کوئی اور فرد مجھ پر دوبارہ حملہ کرنے کا فیصلہ کرے کیونکہ اس کی وجہ سے اس کے والد اور چاچا کو سلاخوں کے پیچھے رہنا پڑا۔

لاہور سے تعلق رکھنے والے اسد جمال ایڈووکیٹ جنہوں نے صبا کا مقدمہ لیا وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں خاندانی تعلق کی اہمیت اور پیچیدگیوں کے باعث غیرت کے نام پر تشدد کی موجودگی برقرار رہے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی باپ اپنے بیٹے کو قتل کرنے کوشش کے الزام میں جیل جاتا ہے تو گھر کا کفیل ہونے کی وجہ سے بیٹے کو اپنے باپ کو معاف کرنا پڑے گا۔

اسد جمال نے شہادتوں کو بچانے کی پروگرام کی کمی پر بھی زور دیا، جس کی وجہ سے متاثرین کے گھر والے دباؤ ڈالتے ہیں کہ اس طرح کے واقعات میں اصل بیان کو واپس لے لیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب تک حکومت ان مسائل سے نہیں نمٹتی اس وقت تک غیرت کے نام پر قتل کرنے والے مجرمان کے خلاف قانونی کارروائی نہیں کی جاسکتی۔