اس رسہ کشی میں عوام کھیل کے حقیقی لطف اور ایک اہم مقابلے کے پاکستان میں انعقاد کی خوشی منانے کے بجائے غیر ضروری بحث میں شامل ہو گئے ہیں۔ پاک فوج کی یقین دہانی اور سربراہان مملکت کی سطح کی سکیورٹی کی تصدیق کے بعد بھی چند حلقوں کی جانب سے مسلسل اس فیصلے پر سخت تنقید کی جا رہی ہے۔
فیصل بینک ٹی ٹوئنٹی کپ جیسی بھپتیاں کسنا اور مضحکہ خیز 'اردو کمنٹری' کی باتیں کرنا یہ صاف ظاہر کرتا ہے کہ فائنل کا انعقاد اب مکمل طور پر ایک سیاسی ایونٹ بن چکا ہے۔ اس لیے اگر آپ اس معاملے پر کوئی بہتر رائے قائم کرنا چاہتے ہیں تو چند پہلوؤں کو واضح رکھیں۔
پاکستان سپر لیگ کا مقصد سب سے پہلے تو یہ دیکھنا ضروری ہے کہ آخر پاکستان سپر لیگ کا مقصد کیا ہے؟ ان کے بارے میں جان کر ہی آپ بہتر رائے قائم کر سکیں گے۔ پی ایس ایل کا پہلا مقصد تو یہی ہے کہ پاکستان کرکٹ کے مالی خسارے کو کم کرکے اسے ایک منفعت بخش اور مالی لحاظ سے ایک مضبوط ادارہ بنانا ہے۔ دوسرا، نوجوان اور باصلاحیت کھلاڑیوں کو تلاش کرکے دنیا کے معروف کھلاڑیوں کے ساتھ کھلانا تاکہ ان کے اعتماد میں اضافہ ہو اور عالمی معیار کے کوچز کی نگرانی میں ان کی خام صلاحیتیں نکھریں۔
یہ دونوں ہدف اسی صورت میں زیادہ بہتر انداز میں حاصل ہو سکتے ہیں جب لیگ کا انعقاد پاکستان میں ہو۔ یہاں کے میدان پاکستان کرکٹ بورڈ کی ملکیت ہیں، اس لیے متحدہ عرب امارات کے میدانوں کو بھاری کرایوں پر لینے کے اخراجات ختم ہو جائیں گے اور ساتھ ہی پاکستان کے ہوٹلوں اور دیگر انتظامات کے اخراجات بھی دبئی کے مقابلے میں کہیں کم ہوں گے۔
بین الاقوامی کرکٹرز کی حیثیت
بلاشبہ، وطن عزیز کے حالات اس وقت اتنے پرامن نہیں ہیں کہ ہم بین الاقوامی کرکٹ کونسل (آئی سی سی)، بین الاقوامی کرکٹرز کی انجمن (فیکا) اور دیگر اہم اداروں بلکہ دوسرے ملکوں کے کرکٹ بورڈز کو بھی قائل کر سکیں کہ وہ یہاں آ کر کھیلیں لیکن یہ قدم بہرحال اٹھانا تھا اور اگر فیصلہ کرلیا گیا ہے تو اٹھنا چاہیے۔ ہو سکتا ہے کہ ابتدا میں یہ قدم کچھ بھاری ہو کیونکہ کئی غیر ملکی کھلاڑی پاکستان میں کھیلنے سے انکار کر چکے ہیں۔ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز فائنل میں پہنچا ہے تو اس کے تمام غیر ملکی کھلاڑیوں نے کھیلنے سے انکار کردیا ہے جو کسی دھچکے سے کم نہیں۔
یہ بھی پڑھیں: چلے ہوئے کارتاسوں سے فائنل کھیلنے کی غلطی
انٹرنیشنل اسٹارز کی کشش اپنی جگہ لیکن یاد رکھیں کہ وہ 'کرائے کے سپاہی' ہیں اور قومی لیگ کا محض ایک عنصر۔ وہ پی ایس ایل کی ساکھ میں اضافہ ضرور کرتے ہیں لیکن اس کے بنیادی مقاصد کا حصہ نہیں ہیں۔ ایسا بالکل ہو سکتا ہے کہ کیون پیٹرسن، رائلی روسو، ٹائمل ملز اور دیگر کھلاڑیوں کی غیر موجودگی میں لیگ کی کشش میں کمی ہو لیکن مقصد ہرگز فوت نہیں ہوگا اسی لیے فائنل کے پاکستان میں انعقاد کا فیصلہ بہرحال منطقی ہے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کی غلطیاں اس معاملے میں پاکستان کرکٹ انتظامیہ سے چند غلطیاں ضرور ہوئی ہیں۔ ایک تو پروڈکشن ہاؤس 'سن سیٹ+وائن' کو قائل نہیں کر پایا جو ظاہر کرتا ہے کہ لاہور میں فائنل کھیلنا جلد بازی کا فیصلہ تھا جس پر کسی کو قبل از وقت اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے مختلف سیاسی حلقے اسے حکومتی ضد قرار دے رہے ہیں اور کسی حد تک اس رائے میں حق بجانب بھی ہیں۔ اگر فائنل لاہور یا کسی پاکستانی شہر میں کروانا تھا تو یہ بات لیگ سے پہلے ہی روز روشن کی طرح عیاں ہونی چاہیے تھی تاکہ اس کے بروقت انتظامات ہوتے۔ اب عالم یہ ہے کہ فائنل کے لیے نہ کمنٹیٹرز کی وہ ٹیم دستیاب ہے جس نے اپنے شاندار تبصرے سے پی ایس ایل2 کو چار چاند لگائے، نہ ہی عالمی معیار کی ان نشریات کا امکان نظر آتا ہے جس کی وجہ سے دنیا پی ایس ایل کی جانب توجہ کر رہی تھی۔ اس پر انتظامیہ کو بالکل رگیدنا چاہیے لیکن بھپتیاں کسنا، مذاق اڑانا اور 'پاگل پن' قرار دینا ذہنی پستی کا اظہار ہے۔
فہد کیہر
فہد کیہر کرکٹ کے فین ہیں اور مشہور کرکٹ ویب سائٹ کرک نامہ کے بانی ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر fkehar@ کے نام سے لکھتے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔