سندھ، بلوچستان: 'دہشت گردوں کے خلاف مشترکہ آپریشن کا فیصلہ'
کراچی: صوبہ سندھ اور بلوچستان پولیس کے انسداد دہشت گردی ڈپارٹمنٹس (سی ٹی ڈی) نے ملک کے سب سے بڑے صوبے میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر مشترکہ آپریشن کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے، ان ٹھکانوں کی نشاندہی سندھ میں ہونے والے حالیہ دہشت گردی کے واقعات کے بعد حساس اداروں نے کی تھی۔
دونوں صوبوں کے محکمہ سی ٹی ڈی کے طے شدہ اجلاس میں شرکت کیلئے پولیس حکام کراچی سے کوئٹہ روانہ ہوئے تھے۔
سندھ پولیس کے حکام اپنے بلوچستان کے ہم منصب عہدیداروں کو اس بات پر رضامند کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں کہ سندھ میں حالیہ دہشت گردی کے حملوں میں ملوث کالعدم تنظیم کے دہشتگردوں کے ٹھکانے ان کے صوبے میں موجود ہیں۔
سندھ پولیس کے سی ٹی ڈی کے چیف ایڈیشنل آئی جی ثناء اللہ عباسی نے ڈان سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ 'اس سے قبل ہمارے درمیان ہونے والی خط و کتابت اور انٹیلی جنس شیئرنگ کے بعد یہ ایک رسمی ملاقات تھی'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ہم نے نہ صرف ان کو ہائی پروفائل دہشت گردوں کی مشترکہ تحقیقاتی رپورٹس (جے آئی ٹیز) سے حاصل معلومات سے آگاہ کیا بلکہ انٹیلی جنس یونٹس کی رپورٹس بھی انھیں بھیجی گئیں، جو ہمارے کیس کو مضبوط کرتی ہیں، جس کے بعد بلوچستان حکام نے ہمارے ساتھ تعاون پر اتفاق کیا ہے'۔
سینئر پولیس افسر کا کہنا تھا کہ پولیس دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ معمول کے رابطے میں ہے لیکن بلوچستان حکام کے ساتھ ہونے والی ملاقات مختلف تھی جس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ مشترکہ لائحہ عمل کے ذریعے دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر کریک ڈاؤن کیا جائے گا۔
ایڈیشنل آئی جی ثناء اللہ عباسی کا کہنا تھا کہ 'ابتدائی طور پر جن علاقوں کی نشاندہی کی گئی ہے ان میں ضلع خضدار کا علاقہ مستونگ اور وادھ شامل ہے جبکہ افغانستان سے منسلک بلوچستان کے کچھ مقامات بھی اس میں شامل ہیں، دونوں جانب کی پولیس ان دہشتگردوں کے ٹھکانوں کے خلاف مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دینے میں کامیاب ہوگئی ہے'۔
تفتیش کرنے والوں کی جانب سے اس بات کی نشاندہی، کہ حالیہ حملوں میں ملوث دہشتگرد ہمسایہ صوبے سے آئے تھے، کے بعد سندھ کی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ پہلے ہی یہ تجویز دے چکی تھی کہ بلوچستان سے منسلک سرحد پر نگرانی کیلئے نئی فورس کا قیام عمل میں لایا جائے۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ لال شہباز قلندر کے مزار پر گذشتہ ماہ ہونے والے خود کش بم دھماکے کے بعد منعقدہ متعدد اجلاسوں میں اس بات کی کئی مرتبہ نشاندہی کی گئی تھی۔
یہ معاملہ رواں سال میں دو مرتبہ سامنے آیا جبکہ اس سے قبل سندھ پولیس نے ستمبر 2016 کو یہ دعویٰ کیا تھا کہ انھیں ٹھوس ثبوت ملے ہیں کہ شکار پور میں ناکام بنائے جانے والا خود کش بم دھماکے میں ملوث ملزمان ہمسایہ صوبے سے آئے تھے۔
اس مرتبہ بلوچستان حکومت نے سندھ کی تشویش سے اتفاق کیا اور انھیں ایسے ٹھکانوں کے خلاف اقدامات کی اجازت بھی دے دی۔
اس معاملے پر جب بلوچستان کے وزیر داخلہ سرفراز بگٹی سے ٹیلی فون پر بات چیت کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ 'ہم نے اپنی پولیس کو واضح طور پر ہدایات جاری کردی ہیں کہ وہ دیگر صوبوں کے ہم منصب عہدیداروں سے تعاون کریں'۔
انھوں نے منگل کے روز اس حوالے سے ہونے والے اجلاس کی تفصیلات سے آگاہ نہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ 'اگر دہشت گردوں کے ٹھکانوں کی موجودگی کے حوالے سے ٹھوس شواہد اور رپورٹس موجود ہیں تو بلوچستان پولیس ان کے خلاف اقدام کرے گی'۔