"اگر میں دہشتگردوں کو نہیں ماروں گا تو وہ ہمارے لوگوں کو مار دیں گے"
ہمیں یہ اندازہ ہی نہیں ہے کہ دہشتگرد حملے کس طرح بالواسطہ ہمارے بچوں پر اثرات مرتب کرتے ہیں۔ کیا ہم نے تھوڑا ٹھہر کر یہ سوچنے کی کوشش کی ہے کہ یہ ہماری نئی نسل کے رویوں میں کس طرح تبدیلی پیدا کر رہے ہیں؟
میں اپنے دس سالہ کزن سے ہونے والی گفتگو کبھی نہیں بھولوں گی جو اس نے لال شہباز قلندر کے مزار پر ہونے والے حملے کے ایک دن بعد اسکول سے واپس آ کر میرے ساتھ کی تھی۔ یہ وہ موقع تھا جب میں نے ان حملوں کے بچوں پر پڑنے والے دیرینہ اثرات کو سمجھا۔
"زوارہ باجی، آپ کو پتہ ہے آج کیا ہوا؟ دو خودکش بمبار میری دوست کے بھائی کے اسکول میں داخل ہوئے۔ تمام بچے ڈیسک کے نیچے چھپ گئے اور ایان کا بھائی زمین پر یوں لیٹ گیا جیسے مر گیا ہو تا کہ دہشگرد اسے مار نہ دیں۔ پھر پولیس آئی اور ان دہشتگردوں کو اپنے ساتھ لے گئی۔" میرے لیے یقین کرنا بھی مشکل تھا کہ وہ کس طرح پرجوش اور حیران ہو کر بتا رہا تھا۔
اسے جو بات نہیں پتہ تھی، وہ یہ کہ وہاں سیکیورٹی فورسز کی جانب سے ایک فرضی آپریشن کیا گیا تھا تاکہ بچوں کو تربیت دی جا سکے کہ کسی حقیقی دہشتگرد حملے کی صورت میں کیا ردِعمل دینا ہے۔
اس کی معصومانہ گرم جوشی مجھے سال 2015 کے اس دن لے گئی جب وہ سانحہ آرمی پبلک اسکول کو ایک ماہ گزر جانے پر منعقد تقریب سے واپس لوٹا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ اس نے بڑے ہی فخر کے ساتھ کہا تھا، "آپ کو معلوم ہے؟ اب ہمارے ٹیچرز کے موبائل میں ایک ایسی ایپ ہے جس کا بٹن چار بار دبانے سے دو منٹوں میں پولیس آ جائے گی۔" میرا تجسس بڑھا اور میں نے اس سے مزید بتانے کو کہا۔
"اور ہاں اس سے پہلے ہمارے پاس صرف 4 گارڈز تھے جبکہ اب 9 ہیں۔ اور ہاں آپ کو معلوم ہے کہ اس سے پہلے ہمارے پاس صرف اسکول کے اندر ہی کیمرا لگے ہوئے تھے اب تو باہر بھی نصب کیے گئے ہیں۔ اور سب سے زبردست بات تو یہ ہے کہ اب ہمارے اسکول کی کھڑکیاں بُلٹ پروف ہیں جو صرف بم پھٹنے کی صورت میں ہی ریزہ ریزہ ہو سکتی ہیں۔ ہمارے ٹیچر نے بتایا کہ ہم جب بھی الارم کی آواز سنیں تو فوراً ڈیسک کے نیچے جھک کر چھپ جائیں اور اس وقت تک وہاں رہیں جب تک پرنسپل اپنے خاص مائیکرو فون کو استعمال کرتے ہوئے مزید ہدایات نہیں دے دیتیں۔"