'پنجاب میں آپریشن دہشتگردوں نہیں پختونوں کے خلاف'
عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کی رہنما بشرٰی گوہر نے الزام عائد کیا ہے کہ پنجاب میں آپریشن دہشت گردوں کے بجائے پختونوں کے خلاف کیا جارہا ہے، جس کا مقصد انہیں دیوار سے لگانا ہے۔
ڈان نیوز کے پروگرام 'نیوز وائز' میں گفتگو کرتے ہوئے بشریٰ گوہر نے کہا کہ پنجاب حکومت کی کوشش ہے کہ کسی طرح دہشت گردوں سے توجہ ہٹائی جائے اور اسی لیے وہاں غیر قانونی طور پر پختون افراد کو گرفتار کرکے جیلوں میں بند کیا جارہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ 'اس وقت پختون قوم، پنجاب حکومت اور ریاستی ادارے کے نشانے پر ہے اور یہی سلسلہ صوبہ سندھ میں بھی جاری ہے'۔
ان کا کہنا تھا کہ پنجاب میں پولیس خیبر پختونخوا سے آنے والے لوگوں کو نہ صرف تنگ کررہی ہے، بلکہ انہیں ہراساں بھی کیا جارہا ہے۔
مزید پڑھیں: پنجاب میں کریک ڈاؤن: 205 مشتبہ ملزمان گرفتار
اے این پی رہنما نے کہا کہ یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں، بلکہ جب آپریشن ضربِ عضب کے بعد آئی ڈی پیز پنجاب میں آئے تو ان کے ساتھ بھی اسی طرح کا سلوک کیا گیا تھا۔
اس سوال پر کہ آپ کے پاس کیا اطلاعات ہیں کہ اب تک کتنے پختونوں کو حراست میں لیا گیا ہے؟ بشریٰ گوہر نے بتایا کہ انھیں روزانہ کی بنیاد پر رپورٹس موصول ہو رہی ہیں جن میں سیالکوٹ اور گجرات سمیت صوبے کے وہ تمام علاقے شامل ہیں جہاں پر پختون افراد آباد ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 'صورتحال یہ ہے کہ کوئی شخص لاہور میں پشتو بول رہا ہو اور اس کی گاڑی کا نمبر پشاور کا ہو تو اسے گرفتار کرلیا جاتا ہے'۔
انھوں نے کہا کہ ان واقعات سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ پنجاب حکومت کے پاس دہشت گردی کے حوالے سے کوئی حکمتِ عملی موجود نہیں جس کی وجہ سے نسلی بنیادوں پر لوگوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔
بشریٰ گوہر نے واضح کیا کہ اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو اس کے نتائج کافی سنگین ہوسکتے ہیں۔
جب ان سے یہ سوال کیا گیا کہ ایک عرصے سے پنجاب میں آپریشن کا مطالبہ کیا جارہا تھا تو کیا اب آپ اس آپریشن سے مطمئن نہیں ہیں؟ اے این پی رہنما نے کہا کہ یہ آپریشن ظاہر کررہا ہے کہ حکومت کا مقصد دہشت گردوں کی جڑوں کا خاتمہ نہیں، بلکہ پختونوں کو پکڑنا ہے۔
انھوں نے کہا کہ 'اس آپریشن سے نہ صرف پختون قوم کی تذلیل ہو رہی ہے بلکہ انہیں دہشت گرد بھی قرار دیا جارہا ہے، ایک طرف دہشت گرد بھی اسی قوم کو ہی نشانہ بناتے ہیں، جبکہ دوسری طرف حکومت اور ریاستی ادارے بھی یہی کام کررہے ہیں، لہذا ہم اسے کسی صورت قبول نہیں کریں گے'۔
بشریٰ گوہر نے مزید کہا کہ حکومت اس طرح کی کارروائیاں کرکے اصل دہشت گردوں کو تحفظ فراہم کررہی ہے، تاکہ وہ اپنا کام کرتے رہیں۔
خیال رہے کہ گذشتہ روز ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے ’پختونوں‘ سے اپنے صوبے میں بظاہر ’نسلی تعصب‘ برتنے پر حکومت پنجاب کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: پنجاب: ’پختونوں‘ کے ساتھ نسلی تعصب برتنے کی مذمت
ایچ آر سی پی کی جانب سے جاری پریس ریلیز کے مطابق ’پنجاب کے بعض اضلاع کے انتظامی عہدیداروں نے لوگوں کو اپنے اطراف میں پختون دِکھنے اور فاٹا سے تعلق رکھنے والے افراد پر نظر رکھنے اور کسی مشتبہ سرگرمی کو رپورٹ کرنے کے رسمی یا غیر رسمی احکامات جاری کیے ہیں۔‘
ایچ آر سی پی نے معاملے پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پورے نسلی گروہ کو مشتبہ بنائے جانے کی واضح مذمت کا مطالبہ کیا اور نسلی تعصب سے بچنے کے لیے عہدیداروں کے تربیتی پروگرام متعارف کرانے کی ضرورت پر زور دیا۔
یاد رہے کہ رواں ماہ 13 فروری کو لاہور کے مال روڈ پر خودکش حملے میں پولیس افسران سمیت متعدد افراد کے جاں بحق ہونے کے بعد پنجاب کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے صوبے بھر میں کالعدم دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز کیا تھا۔
حملے کے چند روز بعد محکمہ داخلہ پنجاب کے ’صوبائی انٹیلی جنس سینٹر‘ نے ایک خط جاری کیا، جس میں پولیس حکام کو مختلف شہروں کی سیکیورٹی سخت کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔
خط میں کہا گیا تھا کہ ’کومبنگ آپریشنز صوبے کے تمام علاقوں بالخصوص افغان اور پٹھان آبادی والے علاقوں میں کیا جائے۔‘
گزشتہ ہفتے راولپنڈی پولیس نے بھی فاٹا سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی نگرانی شروع کی تھی، جبکہ انہیں چِپ والے قومی شناختی کارڈز جاری کرنے کی تجویز بھی سامنے آئی تھی۔