پاکستان

'خواتین کو ہراساں کرنے کا بل تعلیمی اداروں پر قابل اطلاق نہیں'

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں وزارت قانون نے اس بل کو صرف سرکاری اداروں کے لیے مؤثر قرار دے دیا۔

اسلام آباد: قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے خواتین کو ہراساں کرنے سے متعلق بل کا دائرہ کار اور اطلاق نجی و سرکاری تعلیمی اداروں تک بڑھانے سے انکار کردیا۔

قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں وزارت قانون و انصاف کے حکام نے بتایا کہ پہلے سے موجود قانون میں ترمیم نہیں کی جاسکتی اور تعلیمی اداروں کو اس میں شامل نہیں کیا جاسکتا۔

واضح رہے کہ جمعیت علماء اسلام (ف) کی رکن قومی اسمبلی آسیہ ناصر کی جانب سے پیش کیے گئے (Protection Against Harassment of Women at Workplaces) ترمیمی بل 2014 میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ دفاتر میں خواتین کو ہراساں کیے جانے سے تحفظ فراہم کرنے والے بل میں ترمیم کرتے ہوئے تعلیمی اداروں کو بھی اس میں شامل کیا جائے۔

مزید پڑھیں: 'خاتون کو ہراساں' کرنے پر جامعہ کراچی کے پروفیسر گرفتار

قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں ترمیم شدہ بل پیش کرنے والی آسیہ ناصر کا کہنا تھا کہ زیادہ تر ہراساں کرنے کے واقعات تعلیمی اداروں میں پیش آتے ہیں اور اگر تعلیمی اداروں کو ہی نکال دیا جائے تو خواتین کو تحفظ کیسے فراہم کیا جائے گا۔

وزارت قانون کے حکام کے مطابق 2014 میں قائد اعظم یونیورسٹی کی طالبہ کی جانب سے صدر ممنون حسین کو دائر کی گئی شکایت کے جواب میں بھی صدر ممنون حسین نے معذرت کرتے ہوئے اس بات کو واضح کیا تھا کہ بل کا اطلاق صرف سرکاری اداروں تک محدود ہے تاہم اس معاملے پر انہوں نے وزارت قانون کی تجاویز طلب کی تھیں۔

جس پر صدر ممنون حسین کو آگاہ کیا گیا تھا کہ طالبہ کے ساتھ کیے گئے ہراسگی کے واقعے پر استاد کو یونیورسٹی کے قوائد کے مطابق سزا دی جاسکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پنجاب اسمبلی میں تحفظِ خواتین بل منظور

دوسری جانب وزارت قانون کے حکام نے اس بات پر اصرار کیا کہ خواتین کرمنل لاء کے سیکشن 509 اور 454 کے تحت محفوظ ہیں لہٰذا ہراسگی کے بل میں کسی ترمیم کی ضرورت نہیں۔

اس موقع پر قائمہ کمیٹی کے چیئرمین بابر نواز نے ایسا بل لانے کی ضرورت پر زور دیا جس میں تمام خواتین شامل ہوں اور کسی بھی پریشانی یا ہراساں کیے جانے کے معاملے پر حکومت ان کی مدد کرسکے۔