دنیا

وائٹ ہاؤس کی بریفنگ سے اہم نشریاتی ادارے بے دخل

شون اسپائسر کی پریس بریفنگ سے بے دخل کیے گئے صحافیوں میں بی بی سی، سی این این، نیو یارک ٹائمز کے صحافی بھی شامل تھے۔

واشنگٹن: وائٹ ہاؤس انتظامیہ نے متعدد اہم امریکی نشریاتی اداروں کو پریس سیکریٹری کی آف کیمرہ بریفنگ میں شریک ہونے سے روک دیا۔

پریس بریفنگ سے بے دخل کیے گئے ان میڈیا آؤٹ لیٹس میں وہ ادارے بھی شامل ہیں جنہیں وائٹ ہاؤس ماضی میں بھی تنقید کا نشانہ بناچکا ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق سیکریٹری شون اسپائسر کی پریس بریفنگ سے بے دخل کیے گئے صحافیوں میں برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی)، سی این این، نیو یارک ٹائمز، پالیٹیکو، دی لاس اینجلس ٹائمز اور بَز فیڈ کے صحافی شامل تھے۔

ان نشریاتی اداروں کے نمائندوں کی بے دخلی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی)، یو ایس اے ٹوڈے اور ٹائم میگزین نے بھی بریفنگ کا بائیکاٹ کیا۔

پریس سیکریٹری شون اسپائسر کی جانب سے ان میڈیا اداروں کے نمائندوں کو بریفنگ کا حصہ نہ بنانے کا کوئی واضح جواز پیش نہیں کیا گیا۔

خیال رہے کہ نئے امریکی صدر اقتدار سنبھالنے کے بعد سے میڈیا کو مسلسل تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں، گذشتہ روز (24 فروری) کو ایک پروگرام میں میڈیا اداروں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ میڈیا امریکی عوام کا 'دشمن' ہے اور 'جھوٹی خبریں' پیش کرتا ہے۔

صحافیوں سے رسمی گفتگو میں پریس سیکریٹری شون اسپائسر کا کہنا تھا کہ انہوں نے وائٹ ہاؤس کے بڑے بریفنگ روم کے بجائے اپنے کمرے میں صحافیوں سے گفتگو کا فیصلہ کیا ہے اور ضروری نہیں کہ وہ ہر روز کیمرے کے سامنے ہی بات کریں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'وائٹ ہاؤس غیر شفاف کوریج سے نمٹنے کا ارادہ رکھتا ہے، ہم جھوٹی کہانیوں اور غلط حقائق کو پھیلنے نہیں دیں گے'۔

خیال رہے کہ وائٹ ہاؤس کی جانب سے آف کیمرہ بریفنگ کوئی نئی بات نہیں اور ماضی میں بھی ایسا متعدد بار ہوتا رہا ہے تاہم یہ پہلا موقع ہے جب ایسی پریس بریفنگ کے دوران چند مخصوص میڈیا اداروں کو حصہ بننے سے روکا گیا ہو۔

نشریاتی اداروں کا سخت ردعمل

بے دخلی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اے پی، یو ایس اے ٹوڈے اور ٹائم میگزین نے بھی بریفنگ کا بائیکاٹ کیا۔—فوٹو: رائٹرز

شون اسپائسر کے اس اقدام کے بعد بریفنگ کا حصہ نہ بننے والے نشریاتی اداروں کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا۔

نیو یارک ٹائمز کے ایگزیکٹیو ایڈیٹر ڈین بیکوٹ کا کہنا تھا کہ 'مختلف جماعتوں کی انتظامیہ کی کوریج کی طویل تاریخ کے دوران وائٹ ہاؤس کی جانب سے کبھی ایسا رویہ دیکھنے کو نہیں ملا'۔

واشنگٹن میں بی بی سی کے بیورو چیف پال دیناہار کا کہنا تھا کہ 'وائٹ ہاؤس کی ہر معمول کی پریس بریفنگ میں بی بی سی کا نمائندہ موجود ہوتا ہے اور یہ واضح نہیں ہوسکا کہ انہیں اس بریفنگ میں شریک ہونے سے کیوں روکا گیا'۔

وائٹ ہاؤس نمائندگان کی تنظیم (ڈبلیو ایچ سی اے) نے بھی احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ 'حکومت تک میڈیا کی آزاد رسائی قومی مفاد کے لیے اہم ہے'۔

سی این این کے جاری کردہ ٹوئٹر پیغام میں کہا گیا کہ 'ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس کا یہ اقدام قابل منظور نہیں، جب آپ ایسے حقائق سے عوام کو آگاہ کریں جو انہیں پسند نہیں تو ان کی جانب سے ایسا جواب آتا ہے'۔

بَز فیڈ نیوز کے ایڈیٹر اِن چیف کا اپنے بیان میں کہنا تھا 'ہم وائٹ ہاؤس کی جانب سے اپنے ناپسندیدہ اداروں کو سزا دینے کی اس کوشش کی مذمت کرتے ہیں، اس طرح کے اقدامات سے انتظامیہ کی شفاف کوریج نہیں روکیں گے'۔