دنیا

سعودی عرب میں غیرملکیوں کا اچھا دور ختم

مقامی افراد کیلئے نوکریوں کے مواقع پیدا کرنے کیلئے غیرملکیوں پربھاری ٹیکس عائد کیے گئے، واپس جانے والے افراد کا دعویٰ

ریاض : سعودی عرب میں 17 سال تک پاؤں جمانے کے بعد ڈومنک اسٹیک نے اپنی 2 بلیوں کو جہاز میں لادا جبکہ اپنی بیوی اور اسکول جاتے بچوں کے ساتھ جرمنی واپس روانہ ہوئے، یہ بچے شاید ہی اپنے آبائی وطن کے بارے میں جانتے ہوں گے۔

سعودی عرب کی جانب سے اپنے شہریوں کو زیادہ ملازمتیں دینے کی کوشش اور معیشت میں سست رفتاری کے باعث ڈومنک اسٹیک کی طرح زیادہ تر نوکری پیشہ افراد سعودی عرب چھوڑنے پر مجبور ہیں۔

سعودی حکومت اب مقامی افراد کیلئے نوکریوں کے مواقع پیدا کرنے کیلئے کوشاں ہے — فوٹو: رائٹرز

’وائٹ کالر جاب‘ کرنے کے لیے اچھا وقت ختم ہوگیا ہے۔

ڈومنک اسٹیک کے مطابق سعودی عرب میں ان کے مالکان نے اخراجات کم کرنے کے لیے مغربی افراد کو نوکریوں سے نکال دیا۔

ڈومنک اسٹیک نے اے ایف پی سے بات کے دوران ہنستے ہوئے کہا کہ ’ میں مانتا ہوں کہ وہ اس طرح بہت بچت کرلیں گے‘۔

اخراجات کو کم کرنے، مالی مسائل اور زیادہ سے زیادہ سعودی لوگوں کو ملازمتیں دینے جیسے معاملات غیر ملکیوں کی ملازمتیں ختم کرنے کا سبب بنیں، جن سے عرب ممالک کی سب سے بڑی معیشت خام تیل کی قیمتوں کی کمی کو ایڈجسٹ کر رہی ہے۔

سعودی عرب جو دیگر تمام ممالک کے مقابلے زیادہ تیل برآمد کرتا ہے، اس نے گزشتہ برس اپنی معیشت کو مزید وسعت دینے کے لیے وژن 2030 کا آغاز کیا، جس کا مقصد نجی شعبے میں سعودی عرب کے باشندوں کے لیے مزید گنجائش پیدا کرنا تھا۔

غیر ملکی افراد بھاری فیسوں کی وجہ سے اپنے ممالک واپس جا رہے ہیں — فوٹو: اے ایف پی

سال 2014 سے عالمی سطح پر تیل کی قیمتیں کم ہونے کی وجہ سے سعودی عرب کا بجٹ خسارہ بڑھ گیا اور ملک کی بادشاہت نجی کمپنیوں کی مقروض ہوگئی، خصوصی طور پر اسے تعمیراتی شعبے میں نقصان پہنچا۔

سعودی عرب کے صرف بن لادن گروپ نے ہی پسماندہ ممالک سے تعلق رکھنے والے 70 ہزار ملازمین کو فارغ کیا، مگر سست معاشی رفتار مزید بڑھ گئی جبکہ مزید مغربی ممالک کے افراد کو بھی اپنی ملازمتوں کو خدا حافظ کہنا پڑا۔

تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق سعودی بادشاہت میں اس وقت 90 لاکھ غیرملکی ملازمین ہیں، مگر یہ معیشت پر ڈومنک اسٹیک کی طرح بوجھ ہو گئے ہیں۔

10فیصد تک کاروبار کی مندی برداشت کرنے والی ایک غیر ملکی الیکٹرانک آلات کے فروخت کی کمپنی کے مینجر کے مطابق لوگ سعودی عرب چھوڑ کر جا رہے ہیں، کیوں کہ ان کی ملازمتیں برقرار رہنے کے لیے کانٹریکٹ میں توسیع نہیں ہو رہی۔

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انہوں نے مزید بتایا کہ واقعی بھی اب یہاں اچھا کاروبار نہیں رہا، ہر کسی کو منافع کی کمی کا دباؤ ہے۔اس سے زیاد درناک بات یہ ہے کہ آنے والے جولائی سے حکومت غیر ملکیوں پر بھاری ٹیکس عائد کرنا چاہتی ہے۔

بلوم برگ نے سعودی حکومت کے دستاویزات کے حوالے سے رپورٹ کیا کہ آنے والے جولائی سے غیر ملکی ورکرز پر شروعاتی فیس 100 ریال ماہانہ یعنی 27 امریکی ڈالر سے شروع ہوگی جو 2020 تک بڑھ کر 400 ریال ماہانہ ہو جائے گی۔

اخراجات کم کرنے اورغیرملکیوں پر بھاری فیس عائد کرنے کامنصوبہ

الیکٹرانکس مصنوعات کی کمپنی کے مینیجر کے مطابق کمپنی تقریبا 300 غیر ملکی ملازمین جن میں سے زیادہ تر بھارتی، پاکستانی اور فلپائنی باشندے ہیں انہیں حکومت کی عائد کردہ فیس خود ادا کرنے کے لیے کہے گی۔

اکثر افراد سعودی عرب کی نئی پالیسی سے خوش نہیں — فوٹو: اے ایف پی

ان کے مطابق ان میں سے زیادہ تر افراد ماہانہ 10 ہزار ریال سے بھی کم کماتے ہیں، انہیں اپنے اہل خانہ کو واپس اپنے وطن بھیجنے کے لیے آمادہ کیا جائے گا یا پھر انہیں ملازمتیں چھوڑنے کا کہا جائے گا، تاکہ سعودی باشندوں کے لیے جگہ خالی ہو۔

بلوم برگ کے مطابق سعودی حکومت ان کمپنیوں کی فیس میں بھی اضافہ کرے گی جو مقامی افراد کو زیادہ سے زیادہ بھرتی کرنے والے حکومتی پروگرام کے خلاف سعودی باشندوں کے بجائے غیر ملکی افراد کو بھرتی کریں گی۔

ہزاروں غیر ملکی ملازمین رکھنے والے سعودی عرب کے زامل گروپ کے چیئرمین عبدالرحمٰن الزامل کے مطابق حکومت کئی فیسز میں مسلسل اضافہ کر رہی ہے کیوں کہ وہ منصفانہ طور پر مقامی افراد کے لیے ملازمتوں کو یقینی بنانا چاہتی ہے۔

ایک غیر ملکی سفارت کار کے مطابق حکومت کی جانب سے پانی اور بجلی پر سبسڈی ختم کرنے اور ان پر ٹیکس نافذ کرنے سے قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔

نام خفیہ رکھنے کی شرط پر انہوں نے بتایا کہ اسی وجہ سے ہی کاروباری اخراجات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

ان کے مطابق مغربی ممالک کے باشندے اپنے جیسے ایشیائی اور عرب باشندوں کے مقابلے زیادہ ٹیکس ادائگیاں کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مغربی باشندے فیملی ٹیکس برداشت نہیں کرسکتے، تاہم وہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ پر کشش مراعات سعودی حکومت ان سے چھین رہی اور اس سختی سے کمپنیاں بھی مشکلات کا شکار ہیں۔

اگرچہ حکومت رواں برس مختلف اشیاء پر ٹیکس نافذ کرنا چاہتی ہے تاہم حکومت کا انکم ٹیکس نافذ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔

بجٹ میں غیر ملکیوں کیلئے مراعات نہیں

ایک آسٹریلوی انجنیئر کا کہنا تھا کہ سعودی حکومت سخت بجٹس پیش کر رہی ہے، انہیں نہیں لگتا کہ اس میں ایک تارک وطن کے لیے کوئی مراعات ہوں گی۔

ان کے مطابق وہ اہل خانہ تین سال بعد واپس اپنے گھر تو جا رہے ہیں، مگر ان کے بہت سارے پیسے سعودی ٹھیکے دار کے اوپر واجب الادا ہیں۔

سلمان بن عبد العزیز 2015 میں سعودی عرب کے بادشاہ بنے، ان کے دور میں مالیاتی سطح پر تیزی سے تبدیلیاں کی جا رہی ہیں — فوٹو: اے ایف پی

انہوں نے بھی نام کو سیغہ راز میں رکھنے کی شرط پر بتایا کہ دراصل میں ان کے لیے اضافی تھا اور ویسے بھی میں چھوڑ کر جانے والا تھا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے درجنوں تارکین وطن پہلے ہی کمپنی کو چھوڑ کر چلے گئے ہیں، جب کہ کئی جانے کی تیاریوں میں ہیں۔

سعودی عرب چھوڑنے والے آسٹریلوی ملے جلے احساسات کے ساتھ سعودی سے جار رہے ہیں، کیوں کہ انہوں نے وہاں دوست بنائے، انہوں نے وہاں سوئمنگ پول کی سہولت سے آراستہ غیر ملکی ہاؤسنگ کمپاؤنڈ سے لطف اٹھایا اور اب ریاض کی سختیوں سے آزاد ہو رہے ہیں، کیوں کہ وہاں الکوحل پر پابندی ہے، جہاں کوئی بھی سینما اور عوامی تھیٹر نہیں ہے۔

سعودی عرب میں کئی سال گزارنے والے ایک غیر ملکی فنڈ مینیجر کے مطابق مغربی ممالک کے مزدوروں کے لیے اچھا وقت ختم ہوگیا۔

ان کے مطابق انہوں نے 10 سال میں کبھی یہ نہیں سوچا کہ وہ غیر ملکی ہیں، کیوں کہ وہ سعودی میں کام کر رہے تھے۔

ایک غیر ملکی سفارتکار کے مطابق ملک چھوڑ جانے والے ورکرز کی جگہ بھرتی ہونے والے عرب باشندوں نے اخراجات کو تبدیل کردیا ہے۔

ڈومنک اسٹیک جو فروری کے آغاز میں وطن آئے تھے، اب وہ مزید ایک سال یہاں رہنے کا سوچ رہے ہیں، وہ اپنی کمپنی کو چھوڑنے والے آخری مغربی مینیجرز میں سے ایک ہیں۔

ان کی کمپنی جرمنی کی ملٹی نیشنل کمپنی کی اتحادی ہے جو وہاں کی بڑی کمیونی کیشن کمپنی ہے، جو اب چین کی ہواوے کمپنی میں شامل ہونے جا رہی ہے۔

ڈومنک اسٹیک کے مطابق کمپنی کی جانب سے کار، گھر ا ور اسکول سمیت تمام فیسوں کی ادائیگی کی وجہ سے انہیں کافی بچت ہوئی، تاہم اب بھی وہ خوش ہیں، مگر مستقبل کی تنخواہ کے حوالے سے زیادہ پر امید نہیں ہیں۔