پاکستان

طلب کے باوجود کرائے کی کوکھ عدم دستیاب

جو لوگ اولاد کے حصول کے لیے کرائے کی کوکھ استعمال کرنا چاہتے ہیں، ماہرین انہیں بیرون ملک جانے کا مشورہ دیتے ہیں۔

کراچی: ملک میں کرائے کی کوکھ (سروگیسی) کی مانگ میں اضافے کے باوجود ماہرین بانجھ پن کے شکار افراد اور ان لوگوں کو یہ سہولت فراہم نہیں کرتے جو اولاد کے حصول کے لیے کرائے کی کوکھ استعمال کرنا چاہتے ہیں، بلکہ جو لوگ خرچہ برداشت کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں، ماہرین انہیں بیرون ملک جانے کا مشورہ دیتے ہیں۔

وفاقی شرعی عدالت کی جانب سے حال ہی میں ان وٹرو فرٹیلائیزیشن (آئی وی ایف) یعنی ٹیسٹ ٹیوب بے بیز کو قانونی جب کہ کرائے کی کوکھ کے ذریعے بچے کی پیدائش کو غیر اسلامی قرار دئیے جانے کے بعد ڈان نے اس حوالے سے کچھ آئی وی ایف ماہرین سے ان کی رائے جاننا چاہی۔

خیال رہے کہ آئی وی ایف طریقہ کار کے تحت بانجھ پن کی شکار خاتون کے جسم سے انڈوں کو نکال کر لیبارٹری میں ان کے اندر اسپرم داخل کرنے کے بعد انھیں واپس اسی خاتون میں منتقل کیا جاتا ہے جبکہ سروگیسی کی صورت میں انھیں کسی اور خاتون کے رحم میں منتقل کردیا جاتا ہے۔

سندھ انسٹی ٹیوٹ آف ری پروڈکٹو میڈیسن کی ڈائریکٹر اور آئی وی ایف ماہر ڈاکٹر شاہینہ ظفر کے مطابق ملک بھر میں کرائے کی کوکھ کی مانگ ہونے کے باوجود ہم یہ سہولت فراہم نہیں کر رہے۔

یہ بھی پڑھیں: بہت زیادہ ٹیلیویژن دیکھنا بانجھ پن کا خطرہ بڑھائے

ان کے مطابق اس وقت بے اولاد جوڑوں اور خصوصی طور پر غیر مسلم جوڑوں کی جانب سے ہم پر بہت دباؤ ہے کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے پاس اپنا بچہ حاصل کرنے کے لیے اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں ہے۔

یاد رہے کہ ڈاکٹر شاہینہ ظفر نے 1997 میں اس ٹیم کی سربراہی کی تھی، جس نے سندھ میں پہلے ٹیسٹ ٹیوب بے بی کی ڈلیوری کروائی تھی، ان کا کہنا تھا کہ ملک بھر میں چند آئی وی ایف ماہرین موجود ہیں اور انھوں نے کسی بھی ایسے ڈاکٹر کے متعلق نہیں سنا جو سروگیسی کی سہولت فراہم کرتا ہو۔

ان حوالے سے ان کا کہنا تھا، 'اگر کوئی خفیہ طور پر یہ کام کر رہا ہو تو وہ اس متعلق نہیں جانتی'۔

کونسیپٹ فرٹیلٹی سینٹر کلفٹن سے وابستہ ڈاکٹر سعدیہ پال نے ڈاکٹر شاہینہ کی رائے سے اتفاق کیا۔

ڈاکٹر سعدیہ پال سے جب پوچھا گیا کہ کیا ڈاکٹرز اولاد کے خواہشمند افراد کو سروگیسی عمل اختیار کرنے کا مشورہ دیتے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے کبھی کسی ڈاکٹر کی جانب سے کسی کو سروگیسی عمل کی سہولت فراہم کرنے کا نہیں سنا۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ 'اب اس حوالے سے انٹرنیٹ پر بھی بہت سارا مواد موجود ہے، لوگ خود سے بھی اس حوالے سے اپنے لیے موزوں طریقہ ڈھونڈ نکالتے ہیں اور جو اس کا خرچ برداشت کرسکتے ہیں وہ اس عمل کو اپناتے بھی ہیں'۔

آسٹریلین کانسیپٹ انفرٹیلٹی میڈیکل سینٹر سے وابستہ ڈاکٹر سونیا نقوی کے مطابق اگرچہ سروگیسی کے ساتھ بہت سارے قانونی، اخلاقی اور مذہبی تحفظات وابستہ ہیں، تاہم بعض اوقات مریض کے پاس اولاد کے حصول کے لیے اس عمل کے سوا کوئی اور طریقہ موجود نہیں ہوتا۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ ایک نوجوان خاتون ہسٹریکٹومی (کینسر کے علاج کے لیے خاتون کے رحم کے تمام حصوں کو جسم سے نکالنے کے لیے کی جانے والی سرجری) کے بعد کیا کرنا چاہئیے تو ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے واقعات اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ سروگیسی کے طریقہ کار کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں: سروگیٹ مائیں

لاہور کے حمید لطیف ہسپتال کے آئی وی ایف ماہر ڈاکٹر ہارون لطیف نے بتایا کہ آئی وی ایف اور سروگیسی پر پہلی فتویٰ مصر کی جامعہ الازہر نے 1980 میں دیا تھا، جس میں واضح کیا گیا تھا کہ اس میڈیکل عمل کے دوران میاں بیوی کے علاوہ تیسرے شخص کو شامل نہیں کیا جائے۔

ان کے مطابق بعد ازاں مسلم ممالک نے اس فتویٰ کی روشنی میں قوانین بنائے، تاہم زیادہ تر سنی علماء سروگیسی عمل کی خلاف ہیں کیونکہ اس میں غیر محرم مرد کے اسپرم خاتون کے رحم میں داخل کیے جاتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق ایران وہ واحد اسلامی ملک ہے جہاں بانجھ پن کے شکار افراد کے لیے سروگیسی کی سہولت کی اجازت ہے، تاہم یہ صرف قانونی طور پر شادی شدہ افراد کے لیے ہے۔

ماہرین نے بتایا کہ سروگیسی کا عمل بھارت میں بہت بڑا کاروبار بن چکا ہے، جہاں اسے قانونی حیثیت حاصل ہے، لوگ وہاں اپنے اسپرم اور انڈے عطیہ کرتے ہیں، جب کہ غربت کی وجہ سے وہاں زیادہ تر خواتین اپنی کوکھ کرائے پر دینے کو تیار ہوتی ہیں۔


یہ خبر 23 فروری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی