پاک فوج کا ملک بھر میں ’رد الفساد‘ آپریشن کا فیصلہ
پاک فوج نے ملک بھر میں آپریشن ’رد الفساد‘ شروع کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق آپریشن شروع کرنے کا فیصلہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی زیر صدارت لاہور میں سیکیورٹی اجلاس میں کیا گیا۔
بیان میں کہا گیا کہ ملک بھر کو اسلحہ سے پاک کرنا، بارودی مواد کو قبضے میں لینا آپریشن کے اہم جز ہیں، جبکہ آپریشن کا مقصد ملک بھر میں دہشت گردی کا بلاامتیاز خاتمہ اور سرحدی سلامتی کو یقینی بنانا ہے۔
آپریشن ’رد الفساد‘ نیشنل ایکشن پلان کا حصہ ہے جس کے دوران پنجاب میں انسداد دہشت گردی کے لیے رینجرز بڑے پیمانے پر کارروائی کرے گی، جبکہ آپریشن میں فضائیہ، بحریہ، سول آرمڈ فورسز اور سیکیورٹی ادارے شریک ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیں: ضرب عضب کا ایک سال، 2763 'دہشت گرد' ہلاک
یاد رہے کہ وفاق کے زیرِ انتظام پاک افغان سرحد پر واقع شمالی وزیرستان، خیبر ایجنسی اور اورکزئی ایجنسی سمیت 7 ایجنسیوں کو عسکریت پسندوں کی محفوظ پناہ گاہ سمجھا جاتا ہے۔
حکومت اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے درمیان امن مذاکرات کی ناکامی اور کراچی ایئرپورٹ پر حملے کے بعد پاک فوج نے جون 2014 میں شمالی وزیرستان میں آپریشن ’ضربِ عضب‘ شروع کیا تھا۔
شمالی وزیرستان کی تحصیل میرعلی کو دہشت گردوں سے خالی کروانے کے بعد سیکیورٹی فورسز نے آپریشن کا دائرہ کار شمالی وزیرستان کے دوردراز علاقوں تک بڑھا دیا تھا۔
بعد ازاں خیبر ایجنسی اور ملحقہ علاقوں میں آپریشن ’خیبر ون‘ اور 'خیبر ٹو' کے تحت سیکیورٹی فورسز نے اپنی کارروائیاں مزید تیز کردیں۔
جبکہ دسمبر 2014 میں پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے حملے کے بعد بھی دہشت گردوں کے خلاف کارروائی میں تیزی لائی گئی۔
مزید پڑھیں: 'آپریشن راہ نجات' متاثرین کی 16 مارچ سے واپسی
قبل ازیں 2009 میں پاک فوج نے جنوبی وزیرستان میں کمانڈر بیت اللہ محسود کے گروپ کے خلاف فوجی کارروائی کا آغاز کیا اور aسے 'آپریشن راہ نجات' کا نام دیا گیا۔
اس آپریشن کا باقاعدہ آغاز پاک فوج کے جنرل ہیڈ کواٹرز پر شدت پسندوں کے حملے کے بعد ہوا۔
آپریشن کے اعلان کے بعد ایجنسی کے دور دراز علاقوں سے لوگوں نے بڑے پیمانے پر نقل مکانی شروع کی اور وانا، ٹانک، لکی مروت، بنوں اور ڈیرہ اسماعیل میں پناہ گزین ہوئے۔
دہشت گردی کی نئی لہر
رواں ماہ 13 فروری کو لاہور کے مال روڈ پر پنجاب اسمبلی کے سامنے دہشتگردوں نے خودکش حملہ کیا، جس کے نتیجے میں پولیس افسران سمیت 13 افرادہلاک اور 85 زخمی ہوئے، جس کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹیٹی پی) سے علیحدگی اختیار کرنے والے گروپ 'جماعت الاحرار' نے قبول کیتھی۔
13 فروری کو ہی کوئٹہ میں سریاب روڈ میں واقع ایک پل پر نصب دھماکا خیزمواد کو ناکارہ بناتے ہوئے بم ڈسپوزل اسکواڈ (بی ڈی ایس) کمانڈر سمیت 2افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔
15 فروری کو وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے فاٹا کی مہمند ایجنسی میںخودکش حملے کے نتیجے میں خاصہ دار فورس کے 3 اہلکاروں سمیت 5 افراد جاںبحق ہوگئے تھے، اس حملے کی ذمہ داری بھی’جماعت الاحرار’ نے قبول کی تھی۔
15 فروری کو ہی پشاور میں ایک خود کش حملہ آور نے ججز کی گاڑی کو نشانہبنایا جس کے نتیجے میں گاڑی کا ڈرائیور ہلاک ہوگیا تھا، جس کی ذمہ داریکالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے قبول کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
16 فروری کو صوبہ سندھ کے شہر سیہون میں درگاہ لعل شہبازقلندر کے احاطے میں خودکش دھماکے کے نتیجے میں خواتین و بچوں سمیت 80 سےزائد افراد جاں بحق اور 200 سے زائد زخمی ہوئے، جس کی ذمہ داری داعش نے قبول کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
21 فروری کو خیبرپختونخوا کے ضلع چارسدہ میں ضلع کچہری پر ہونے والے حملے کے نتیجے میں 5 افراد جاں بحق اور 15 سے زائد افراد زخمی ہوئے جبکہ 3 خود کش حملہ آوروں کو بھی ہلاک کردیا گیا۔حملے کی ذمہ داری کالعدم گروپ جماعت الاحرار نے قبول کرنے کا دعویٰ کیا۔
خود کش دھماکوں کے ساتھ ساتھ ملک کے مختلف علاقوں میں سیکیورٹی فورسز کےقافلوں کو بھی نشانہ بنایا جارہا ہے، جمعرات 16 فروری کو ہی بلوچستان کےعلاقے آواران میں سڑک کنارے نصف دیسی ساختہ بم پھٹنے سے پاک فوج کے ایککیپٹن سمیت 3 اہلکار جاں بحق ہوگئے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: چارسدہ میں ضلع کچہری پر حملہ، 3 دہشتگرد ہلاک
ماضی میں کیے گئے فوجی آپریشنز
پاکستان میں نائن الیون حلموں کے بعد سے دہشت گردی میں اضافہ دیکھنے میں آیا اور 2007 میں لال مسجد پر ہونے والے آپریشن کے بعد پاکستان نے پوری طاقت سے دہشت گردی کو کچلنے کا فیصلہ کیا اور اس کے بعد پاک فوج نے خاص طور پر خیبر پختوںخوا اور فاٹا میں کئی آپریشنز لانچ کیے جن کی تفصیلات کچھ یوں ہے:
وادی سوات اور شانگلہ ڈسٹرکٹ میں آپریشن ’راہِ حق‘ (2007)
وادی سوات اور شانگلہ میں آپریشن ’راہِ حق دوئم‘ (2008)
خیبر ایجنسی میں آپریشن ’صراطِ مستقیم‘ (2008)
باجوڑ ایجنسی میں آپریشن ’شیر دل‘ جس میں فرنٹیئر کور نے بھی حصہ لیا (2008)
وادی سوات اور شانگلہ میں آپریشن ’راہ حق سوئم‘ (2009)
بونیر، لوئر دیر اور شانگلہ میں آپریشن ’بلیک تھنڈر اسٹروم‘ (2009)
مہمند ایجنسی میں آپریشن ’بریخنا‘ (2009)
سوات میں آپریشن ’راہ راست‘ جسے سوات آپریشن بھی کہا جاتا پے (2009)
جنوبی وزیرستان میں آپریشن ’راہ نجات‘ (2009)
شمالی وزیرستان میں آپریشن ’ضربِ عضب‘ (2014)