پاکستان

'قومی اسمبلی جائیداد کی قیمتوں کا تعین نہیں کرسکتی'

اپوزیشن اراکین نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایف بی آر ٹیکس دہندہ کو آڈٹ کے ذریعے ہراساں کررہی ہے۔

اسلام آباد: قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں اپوزیشن اراکین نے حکومت کو ایمنسٹی اسکیم متعارف کرانے پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔

کیمٹی کے اجلاس کی صدارت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قیصر احمد شیخ کررہے تھے، انھوں نے ملک میں دولت واپس لانے اور جائیدادوں کی قیمتیں مقرر کرنے کے حوالے سے کمیٹی اراکین کے درمیان ہونے والی کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش کی۔

حکومتی اراکین کو سب سے پہلی مزاحمت کا سامنا اس وقت کرنا پڑا جب فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی جانب سے جائیداد کی قیمت اور اس پر ٹیکس مقرر کرنے کے حوالے سے ذیلی کمیٹی کی ایک رپورٹ پیش کی گئی۔

ذیلی کے کمیٹی کی صدارت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے میاں عبدالمنان کررہے تھے، مذکورہ کمیٹی کو جائیداد پر ٹیکس ریٹ مقرر کرنے کا اختیار دیا گیا تھا، تاہم انھیں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔

پی پی پی کے سید نوید قمر کا کہنا تھا کہ 'ملک کے مختلف علاقوں میں جائیداد کی مارکیٹ قیمت مقرر کرنا پارلیمانی باڈی کا کام نہیں ہے، یہ متعلقہ محکمہ کی ذمہ داری ہے'۔

پی ٹی آئی کے اسد عمر کا کہنا تھا کہ ذیلی کمیٹی کی رپورٹ کا مقصد غیر قانونی ذرائع سے حاصل کی گئی آمدن کو متعارف کرانے کی اجازت دینا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہمیں عام شہری کیلئے عملی اقدامات اور ہمدری دکھانی ہوگی، ایک سیدھا سادہ اور ایماندار شہری جو ایمانداری سے زندگی گزار رہا ہے ملک میں اب 10 مرلے کا پلاٹ خریدنے کی گنجائش نہیں نکال سکتا، تو ہم کن کو سہولت فراہم کرنے کی کوشش کررہے ہیں؟'

دونوں جانب کے اراکین نے اس بات کو تسلیم کیا کہ ملک بھر میں جائیداد کی قیمتیں بہت بڑھ چکی ہیں اور انتظامیہ اس کو درست کرنے میں ناکام ہوئی ہے۔

اس کے بعد کمیٹی کے اراکین نے ایف بی آر کو تشخیص ٹیبل میں موجود بے ضابطگیوں کو نکالنے کی ہدایت کی، یہ ہدایت ذیلی کمیٹی کی تجاویز پر دی گئی تھی اور انھیں دوبارہ کمیٹی کے سامنے پیش کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔

کمیٹی کے چیئرمین نے ایف بی آر کو یہ ہدایت بھی جاری کی کہ وہ کمیٹی کے اراکین کے ساتھ بیٹھ کر پالیسی ترتیب دیں، جو آئندہ کے مالی سال کے بجٹ میں شامل کی جائیں گی۔

کمیٹی نے ایف بی آر کو نئی ایمنسٹی اسکیم کے حوالے سے نئی تجاویز پیش کرنے کا بھی کہا، جو ایسے پاکستانیوں کیلئے پیش کی جائے گی جو ملک میں رہائش پذیر نہیں تاکہ وہ اپنی دولت ملک میں واپس لاسکیں۔

عبدالمنان نے کمیٹی کو بتایا کہ وزیراعظم نے تاجر برادری کے مطالبات سے اصولی اتفاق کیا تھا اور وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو اس قسم کی اسکیم متعارف کرانے کی ہدایت کی تھی۔

تاہم اس بیان کو اسد عمر کی جانب سے سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا، جن کا کہنا تھا کہ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم ملک میں جی ڈی پی میں ٹیکس کے کم تناسب کی ذمہ دار ہے۔

ایف بی آر کی آڈٹ پالیسی پر بحث کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ادارے کی آڈٹ پالیسی تاجر برادری کو ہراساں کررہی ہے، کمیٹی کے تمام اراکین نے اس موقف کی تائید کی۔

قیصر احمد شیخ نے ایف بی آر کے چیئرمین ڈاکٹر محمد ارشد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ 'آپ کی آڈٹ پالیسی ٹیکس دہندہ کیلئے مسائل پیدا کررہی ہے اور ٹیکس کی ادائیگی میں کمی کا باعث ہے'۔

تاہم ایف بی آر کے چیئرمین نے دفاع کرتے ہوئے جی ڈی پی میں ٹیکس کے کم تناسب کا ذمہ دار 2000 میں متعارف کرائی گئی سیلف اسسمنٹ سکیم کو قرار دیا۔

انھوں نے کہا کہ ٹیکس دہندہ کی آڈٹ کا کام 8 سال بعد شروع کیا گیا ہے۔

اس موقع پر مردم شماری کے چیف کمشنر آصف باجوہ نے بھی کمیٹی کو بریف کیا اور ایم کیو ایم، فاٹا کے اراکین کے سوالات کے جوابات دیے۔

کمیٹی نے تجویز پیش کی کہ فاٹا کے آئی ڈی پیز سے متعلق مردم شماری کا مسئلہ فاٹا کے اراکین کی مشاورت سے حل ہونا چاہیے جس پر آصف باجوہ کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے فاٹا سیکریٹریٹ میں 28 فروری کو ایک ملاقات پہلے سے طے ہے۔

یہ رپورٹ 22 فروری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی