پاکستان

پاناما کیس:'اگر ادارے کام کرتے تو کیس سپریم کورٹ نہ آتا'

حدیبیہ پیپرزمل کیس میں نیب نےمعاملہ ٹھپ کردیا، نہ ہی اپیل کی اور نہ ہی ریفری جج کے فیصلے کو پڑھا، جسٹس کھوسہ کےریمارکس
|

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں پاناما لیکس پر جاری درخواستوں کی سماعت کے دوران 5 رکنی لارجر بینچ کی جانب سے طلبی کے احکامات کے بعد قومی احتساب بیورو (نیب) اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے چیئرمین عدالت میں پیش ہوئے۔

بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے چیئرمین نیب سے استفسار کیا کہ آف شور کمپنیوں سے متعلق ایف بی آر کا کیا کردار ہے؟ کیونکہ یہ بات طے شدہ ہے کہ آف شور کمپنیاں بنانا غلط کام نہیں۔

چیئرمین ایف بی آر ڈاکٹر ارشاد نے عدالت کو بتایا کہ پاناما 'ٹیکس کی جنت' ہے جبکہ اس معاملے پر متعلقہ ملک کے ساتھ کوئی معاہدہ موجود نہیں، تاہم وزارت خارجہ کے ذریعے ان ممالک سے رابطے کی کوشش کی گئی۔

جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیئے کہ ایف بی آر کو وزارت خارجہ سے رابطہ کرنے میں 6 ماہ لگ گئے جبکہ ایف بی آر کا دفتر وزارت خارجہ سے 200 گز کے فاصلے پر واقع ہے۔

مزید پڑھیں: پاناماکیس: چیئرمین نیب، ایف بی آر ریکارڈ سمیت طلب

جسٹس عظمت سعید کے سوال پر کہ ایف بی آر نے پاناما لیکس پر آف شور کمپنی مالکان کو نوٹس کب جاری کیے؟ چیئرمین ایف بی آر نے بتایا کہ ستمبر 2016 میں 343 افراد کو ایف بی آر نے پاناما لیکس پر نوٹسز جاری کیے۔

ڈاکٹر ارشاد نے عدالت کو مزید بتایا کہ آف شور کمپنیوں پر صرف ڈائریکٹر کا نام ہونا کافی نہیں، پاناما پیپرز میں سامنے آنے والے ناموں میں سے 39 کمپنیوں کے مالکان پاکستان کے رہائشی نہیں تھے جبکہ 52 افراد نے آف شور کمپنیوں کی موجودگی سے ہی انکار کردیا تھا۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے چیئرمین ایف بی آر سے دریافت کیا کہ شریف فیملی کو جاری کیے گئے نوٹس پر کس نے جواب جمع کرایا، جس پر چیئرمین ایف بی آر نے بتایا کہ وزیراعظم کے بچوں حسن، حسین اور مریم نواز نے آف شور کمپنیوں پر اپنا جواب 21 نومبر 2016 کو جمع کرایا۔

جواب کی تفصیلات بتاتے ہوئے چیئرمین ایف بی آر کا کہنا تھا کہ مریم نواز نے کہا کہ ان کی بیرون ملک کوئی جائیداد نہیں اور نہ ہی وہ کسی آف شور کمپنی کی مالک ہیں، علاوہ ازیں مریم نے اپنے جواب میں ٹرسٹی ہونے سے متعلق کوئی وضاحت نہیں دی۔

چیئرمین ایف بی آر نے عدالت کو بتایا کہ 'حسین نواز نے جواب میں کہا کہ وہ 2000ء سے سعودی عرب میں مقیم ہیں۔

جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ حسین نواز نے صرف بیرون ملک مقیم ہونے کا دفاع کیا، کیا اس جواب کے بعد آپ نے فائل بند کر دی؟

اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے دریافت کیا کہ کیا آپ حسین نواز کے نیشنل ٹیکس نمبر (این ٹی این) کی تصدیق کرتے ییں؟

جس پر چیئرمین ایف بی آر نے عدالت کو بتایا کہ حسین نواز کا این ٹی این درست ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ 2002 کے بعد پرانے این ٹی این منسوخ ہو گئے تھے، کیا حسین نواز نے نیا این ٹی این بنوایا؟

چیئرمین ایف بی آر نے عدالت کو بتایا کہ وہ اس حوالے سے ریکارڈ سے چیک کر کے بتا سکتے ہیں۔

عدالت نے چیئرمین سے دریافت کیا کہ شریف خاندان کی جانب سے جواب موصول ہونے کے بعد آپ نے کیا اقدامات کیے، اپنے اقدامات کو ریکارڈ سے ثابت کریں۔

چیئرمین ایف بی آر کی جانب سے معلومات کی تصدیق میں وقت صرف کرنے پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا 'لگتا ہے آپ کو تصدیق کے لیے 30 سال درکار ہیں، گھنٹوں کے کام میں ایک سال لگا دیا گیا جبکہ کون کب سے بیرون ملک میں ہے اس کی معلومات ایک گھنٹے میں حاصل کی جاسکتی ہیں'۔

جس پر چیئرمین نے تسلیم کیا کہ اس ضمن میں فوری اقدامات نہیں کیے جاسکے اور اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر التواء ہے۔

چیئرمین ایف بی آر سے استفسار کرتے ہوئے جسٹس عظمت کا کہنا تھا کہ ٹریول ہسٹری کے لیے کس ادارے کو کب درخواست دی گئی اس کا ریکارڈ دکھائیں۔

جس پر وکیل ایف بی آر کا کہنا تھا کہ عدالت کو دکھانے کے لیے ریکارڈ موجود نہیں اور بیرون ملک مقیم 39 آف شور کمپنی مالکان کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔

جسٹس آصف کھوسہ کا کہنا تھا کہ اگر ادارے کام کرتے تو یہ کیس عدالت میں نہ آتا۔

وکیل ایف بی آر نے عدالت کو بتایا کہ منی لانڈرنگ کے حوالے سے الگ قوانین اور ادارے موجود ہیں۔

جس پر جسٹس گلزار نے کہا کہ آپ کا مطلب یہ ہے کہ ایف بی آر نے منی لانڈرنگ کے حوالے سے کچھ نہیں کیا؟

وکیل ایف بی آر کا کہنا تھا کہ پاناما تحقیقات کا ریکارڈ پبلک نہیں کرنا چاہتے کیونکہ ایسا کرنے سے تحقیقات متاثر ہو سکتی ہیں، تاہم عدالت کو یہ ریکارڈ فراہم کیا جا سکتا ہے۔

'حدیبیہ پیپرز مل کیس میں نیب نے معاملہ ٹھپ کردیا'

چیئرمین ایف بی آر کے بعد چیئرمین نیب 5 رکنی لارجر بینچ کے سامنے پیش ہوئے اور بتایا کہ نیب اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہے۔

جسٹس کھوسہ نے چیئرمین نیب سے دریافت کیا کہ نیب کا موقف رہا ہے کہ پاناما کا معاملہ ان کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا جس پر چیئرمین نیب کا کہنا تھا کہ اگر کوئی ریگولیٹر رابطہ کرے تو کارروائی کی جاتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاناماکیس:’1999میں تمام خاندانی دستاویزات ضائع ہوچکی ہیں‘

عدالت عظمیٰ نے استفسار کیا کہ کیا نیب کا موقف یہ ہے کہ ریگولیٹر نہیں آیا، اسی لیے ان کے پاس آف شور کمپنیوں کے خلاف کارروائی کا اختیار نہیں؟ اور کیا نیب کو کوئی اور ریگولیٹ کرتا ہے؟

جس پر چیئرمین نیب نے بتایا کہ نیب کا قانون ہمیں ریگولیٹ کرتا ہے اور نیب قانون، چیئرمین نیب کو کارروائی کا اختیار دیتا ہے۔

جسٹس آصف کھوسہ کا کہنا تھا کہ جو بات چیرمین نیب کر رہے ہیں ایسی باتیں قطری خط میں بھی شامل تھیں اور قطری خط میں بھی ریگولیٹر کی بات کی گئی تھی۔

پراسیکیوٹر جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ مشکوک ٹرانزیکشن پر بینک کی جانب سے کارروائی ہوتی ہے۔

جس پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ 'پراسیکیوٹر صاحب اب بس کر دیں، عدالت کو گمراہ نہ کریں، اگر نیب کو تحقیقات کا اختیار نہیں تو آخر کس کے پاس ہے؟'

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ 'یہ انوکھا مقدمہ ہے جس میں کسی کا دائرہ اختیار نہیں اب سوال یہ ہے کہ آخر تحقیقات کون کرے گا؟'

عدالت کے اس سوال پر کہ کیا نیب کا ریگولیٹر وہ ہے جو چیئرمین کو تعینات کرتا ہے؟ چیئرمین کا کہنا تھا کہ ان کی تعیناتی شفاف اور قانون کے مطابق ہے۔

عدالت کا کہنا تھا کہ 'اللہ نے آپ کو ایسا عہدہ دیا ہے کہ آپ عوام کی خدمت کر سکیں، تاہم ایک سال گزر گیا اور نیب نے کچھ نہیں کیا، جن کے نام پاناما پیپرز میں آئے انہیں بلا کر پوچھا تو جاتا، کیا کسی ایک بندے سے پوچھا گیا کہ سرمایہ کہاں سے آیا؟ سوال پوچھتے ہوئے نیب کا کیا جاتا تھا؟ اگر اسرائیلی وزیراعظم کو تحقیقاتی ادارے بلا کر پوچھ سکتے ہیں تو آپ بھی کسی کو بلا لیتے'۔

جس کے بعد چیئرمین نیب نے عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ پاناما لیکس میں نیب قانون کے مطابق کارروائی کریں گے۔

جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ چیئرمین نیب نے اپنے اختیار کو دفن کر دیا اور یہ ادارے کے مفلوج ہونے کا آئیڈیل کیس ہے۔

جسٹس آصف کھوسہ کا کہنا تھا کہ حدیبیہ پیپرز مل کیس میں نیب نے معاملہ ٹھپ کردیا، نہ ہی اپیل کی اور نہ ہی ریفری جج کے فیصلے کو پڑھا، عدالت کو نیب کے اپیل نہ کرنے پر تحفظات ہیں۔

چیئرمین نیب نے عدالت کو بتایا کہ التوفیق کمپنی کے معاملے پر مقدمہ ایف آئی اے نے تیار کیا تھا۔

جس پر جسٹس عظمت نے جواب دیا کہ ایف آئی اے پاکستان کا ادارہ ہے اٹلی کا نہیں، کسی ملزم کی چار سو روپے کے کیس میں ضمانت ہو جائے تو نیب فورا اپیل فائل کرتا ہے، اس معاملے میں اربوں کی کرپشن پر اپیل نہیں کی گئی، جب ہائیکورٹ کے جج نے کہا کہ نیب اپیل کر سکتی ہے، تو آپ نے اپیل کیوں نہیں کی؟

چیئرمین نیب نے عدالت کو بتایا کہ اپیل دائر کرنے کا فیصلہ پراسیکیوٹر کی مشاورت سے کیا جاتا ہے اور اس معاملے میں پراسیکیوٹر نے رائے دی کہ اپیل کرنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ اگر اپیل کی جاتی تو نیب کی بدنامی ہوتی اور میاں شریف حیات بھی نہیں تھے۔

جسٹس آصف کھوسہ نے چیئرمین نیب سے سوال کیا کہ وہ بتائیں ک کسی دباؤ کے بغیر کیس کھولنے کے حق میں ہیں یا نہیں؟ جس پر چیئرمین نیب کا کہنا تھا کہ وہ اپیل دائر نہ کرنے کے اپنے موقف پر قائم ہیں۔

جس پر جسٹس عظمت نے انہیں تنبیہ کی کہ وہ سنگین نتائج بھگتنے کیلیے بھی تیار رہیں۔

وقفے کے بعد سماعت کے دوبارہ آغاز پر وفاق کے اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے دلائل کا سلسلہ شروع کرتے ہوئے کہا کہ وہ عدالت کے دائرہ اختیار پر قانونی معاونت فراہم کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ درخواستوں میں وزیراعظم کی نااہلی مانگی گئی اور نااہلی سے متعلق عدالتی فیصلوں کی مثالیں موجود ہیں۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ حنیف عباسی نے بھی عمران خان اور جہانگیر ترین کے خلاف نااہلی کی درخواستیں دائر کر رکھی ہیں۔

اٹارنی جنرل کا مزید کہنا تھا کہ یہ ایک منفرد کیس ہے اور کیس کے لیے منتخب کیا گیا فورم اسے دوسرے مقدمات سے منفرد بناتا ہے، درخواستیں کو وارنٹو اور الیکشن پٹیشنرز کی نوعیت کی ہیں جن کی سماعت کرنا عدالت کا معمول اور دائرہ اختیار نہیں۔

اٹارنی جنرل کے مطابق ماضی میں بھی عدالت نے ایسی درخواستوں کو پذیرائی نہیں بخشی اور عدالت کا وضع کردہ قانون تمام ارکان پارلیمنٹ پر لاگو ہو گا۔

جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ عدالت کو آئین کے آرٹیکل 184/3 کے تحت عوامی مفاد کی درخواستیں سننے کا اختیار ہے، تاہم آرٹیکل 184/3 کا اختیار اگر مشروط ہے تو اٹارنی جنرل اس بارے میں بتائیں، ساتھ ہی ایسی قانونی مثال بھی دیں کہ عدالت نے اختیار ہوتے ہوئے بھی استعمال نہ کیے ہوں۔

اشتر اوصاف کا کہنا تھا کہ عدالت نے ہمیشہ بنیادی حقوق کے مقدمات میں اپنا اختیار استعمال کیا ہے اور عدالت ان کی آواز بنی جو اپنی آواز خود نہیں اٹھا سکتے ہیں۔

جسٹس شیخ عظمت سعید کا کہنا تھا کہ عدالت درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ کر چکی ہے اور اچھے جج کبھی اپنے اختیارات پر قدغن نہیں لگاتے۔

جسٹس گلزار کا کہنا تھا کہ عدالت کا دائرہ اختیار محدود نہیں ہوتا۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ دائرہ اختیار قانون کے مطابق ہی استعمال ہوتا ہے جبکہ فریقین کا متفق ہونا بھی عدالت کو اختیار نہیں دیتا۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ سوال یہ ہے کہ نیب کی جانب سے اپیل دائر نہ کرنے پر درخواست گزار اب تک کیا کر رہے تھے؟ یہ درست ہے کہ غفلت برتنے پر نیب نے عوام کے بنیادی حقوق متاثر کیے۔

عدالت نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ کیا عدالت کو حدیبیہ پیپر ملز کیس میں مداخلت نہیں کرنی چاہیئے؟ اور کیا ہم 1.2 ارب کی بدعنوانی کا معاملہ بغیر حساب کتاب جانے دیں؟

جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ یہ سوال ان کے لیے آسان نہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ کیا آپ کی رائے یہ ہے کہ عدالت حدیبیہ پیپر ملز کیس کو دوبارہ نہیں کھلوا سکتی؟

جس کے جواب میں اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ان کی یہ ہی رائے ہے اور اگر عدالت فیصلہ دیتی ہے تو یہ ایک بری مثال بن جائے گی۔

جسٹس آصف کھوسہ کا کہنا تھا کہ اگر ہم نے نیب کی جانب سے اپیل نہ کرنے پر فیصلہ دیا تو پھر چیئرمین نیب اپنے عہدے پر نہیں رہیں گے۔

عدالت نے اٹارنی جنرل کو کل بروز منگل (22 فروری) تک دلائل مکمل کرنے کی ہدایت دیت ہوئے کیس کی سماعت کی ملتوی کردی۔

8 ہفتوں کا وقت طلب

سماعت کے آغاز پر ہی شریف خاندان کے وکلاء کی جانب سے عدالت عظمیٰ میں درخواست دائر کی گئی جس میں استدعا کی گئی تھی کہ وکلاء کے دلائل ختم ہونے کے بعد عمران خان کی جانب سے جمع کرائی گئی اضافی دستاویزات کو ریکارڈ کا حصہ نہ بنایا جائے۔

درخواست میں مزید کہا گیا کہ اگر عدالت ان دستاویزات کو ریکارڈ کا حصہ بناتی ہے تو 8 ہفتوں کا وقت دیا جائے تاکہ شریف خاندان کے وکلاء اس پر بحث کے لیے تیاری کرسکیں۔

شریف خاندان کے وکلاء کی جانب سے عدالت سے یہ استدعا بھی کی گئی کہ عمران خان اور جہانگیر ترین کے خلاف موجود درخواستوں پر سماعت مقرر کی جائے کیونکہ انہوں نے آف شور کمپنیوں کے الزامات کو مسترد نہیں کیا اور نہ ہی عمران خان نے لندن فلیٹس کا منی ٹریل پیش کیا۔

یاد رہے کہ 15 فروری کو پاناما کیس پر درخواستوں کی سماعت کے دوبارہ آغاز پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے نئے شواہد سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے تھے۔

پی ٹی آئی کا دعویٰ تھا کہ یہ شواہد نواز شریف اور ان کے اہلخانہ کی جانب سے پیش کیے گئے تمام دلائل کو غلط ثابت کردیں گے۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ 4 جنوری سے پاناما کیس پر درخواستوں کی سماعت کررہا تھا، بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس گلزار احمد، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الحسن شامل ہیں۔

31 جنوری کو ہونے والی سماعت کے بعد لارجر بینچ کے رکن جسٹس شیخ عظمت سعید کو دل کی تکلیف کے باعث سماعت ملتوی کردی گئی تھی جس کا دوبارہ سے آغاز پندرہ روز بعد (15 فروری) سے ہوا تھا۔

کیس کا سلسلہ دوبارہ شروع ہونے کے بعد 18 فروری کو وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے بھی عدالت عظمیٰ میں عمران خان کی آف شور کمپنی کے ریکارڈ سمیت اضافی دستاویزات جمع کروائی تھیں، جبکہ وزیراعظم کی نااہلی کے حوالے سے شیخ رشید کی دائر کردہ درخواست کو خارج کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

دوسری جانب قومی احتساب بیورو (نیب) نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں وزیراعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف ایک دہائی قبل دائر ہونے والے دو کرپشن ریفرنسز کا ریکارڈ پیر (20 فروری) کو پیش کیا تھا۔

عدالت میں پیش کیے جانے والے ریفرنسز نیب کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل سید محمد امجد کی جانب سے 2000 میں منظور کیے تھے، ایک ریفرنس حدیبیہ پیپر ملز اسکینڈل اور دوسرا ریفرنس رائے ونڈ میں شریف خاندان کی غیر قانونی تعمیرات کے حوالے سے تھا۔

خیال رہے کہ گذشتہ ہفتے جمعرات (16 فروری) کو ہونے والی کیس کی آخری سماعت میں عدالت عظمیٰ نے قومی احتساب بیورو (نیب) اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے چیئرمین کو ریکارڈ سمیت طلب کیا تھا۔