کھیل کو عزت دو گے تو یاد رہو گے
کہا جاتا ہے کہ پیسے سے آسائشیں تو مل جاتی ہیں مگر سکون نہیں ملتا۔ ایسے ہی آج کل کی کرکٹ کے لیے یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ زیادہ پیسے کی لالچ سے عزت تو جاتی ہے سو جاتی ہے لیکن اعتبار کا پرندہ بھی لوٹ کر واپس نہیں آتا۔
بچپن سے یہ سنتے رہے کہ 'پڑھو گے لکھو گے بنو گے نواب۔۔۔' لیکن جب بچپن نے ہاتھ چھوڑا، زندگی نے دوسری اننگز کا سامنا کرنے کے لئے جوانی کی کریز پر اتارا تو ہمارہ پسندیدہ کھیل کرکٹ کافی حد تک بدل چکا تھا اور اس قول میں کھیل کی خرابی حذف ہوکر کچھ یوں ترمیم ہوئی 'جو کھیلو گے کودو گے، بنو گے نواب'۔
پیسے کی ریل پیل اور چہار سو پھیلی چکاچوند کا اثر یہ ہوا کہ یہ کھیل اپنی سچائی اور اسپرٹ سے محروم ہو گیا۔
ویسے کرکٹ میں کرپشن اور فکسنگ کا وائرس تو کافی پرانا ہے مگر جب پڑوسی ملک میں انڈین پریمیئر لیگ شروع ہوئی اور بشمول کھلاڑی اس کھیل سے جڑے ہر کردار کو اپنی اوقات سے بڑھ کر قیمت ملنے لگی تو گویا راتوں رات امیر بننے کا شارٹ کٹ ہاتھ لگ گیا۔
آسٹریلیا کو پہلے ہی بگ باش لیگ کے ثمرات سے لطف اندوز ہو رہا تھا لیکن دیکھتے ہی دیکھتے سری لنکا، بنگلہ دیش اور ویسٹ انڈیز نے بھی اپنے اپنے آنگن میں ٹی ٹوئنٹی کے میلے سجانے شروع کر دیے اور پھر گزشتہ دو برس سے پی ایس ایل پاکستان کی نئی پہچان بنا ہے۔پاکستان سپر لیگ کا پہلا سیزن بنا کسی اسکینڈل کے بخیر و خوبی کامیابی سے اختتام پذیر ہوا مگر دوسرے ایڈیشن کے دوسرے ہی دن اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل نے پورے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا۔
پاکستان کی پہچان بننے والی لیگ کے دامن پر پہلی بار فکسنگ کے چھینٹے پڑے جس میں ملوث ہونے کے الزام میں شرجیل خان اور خالد لطیف کو معطلی کے ساتھ وطن واپسی کے ٹکٹ بھی تھما دیے گئے اور ساتھ ساتھ انٹرنیشنل و ڈومیسٹک کرکٹ کے دروازے بھی بند کر دیے گئے۔
نام تو کچھ دیگر کھلاڑیوں کے بھی لیے گئے اور ان سے کڑی پوچھ گچھ بھی ہوئی ہے لیکن فرد جرم عائد ہونے کے بعد قوی امکان ہے کہ شرجیل اور خالد مجرم بھی ٹھہریں اور ان کے کریئر کے آگے فل اسٹاپ لگ جائے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کرکٹ سے دیوانگی کی حد تک لگاؤ رکھنے والے مداحوں کی ان امیدوں کا کیا ہوگا جو لالچ کی لہریں اپنی ساتھ بہا کر لے گئیں۔ کیا شرجیل خان اور دیگر کھلاڑی اس نقصان کی تلافی کر پائیں گے، شاید نہیں۔
سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے شرجیل خان ٹھنڈی ہوائوں کے شہر کے وہ واحد کرکٹر ہیں جنہیں تینوں فارمیٹس میں قومی ٹیم کی نمائندگی کا اعزاز نصیب ہوا۔
بائیں ہاتھ کے بلے باز سے پہلے فیصل اطہر اور رضوان احمد کو صرف ایک ایک ون ڈے میچ میں موقع دیا گیا اور پھر وہ گمنامی کے اندھیروں میں دھکیل دیے گئے۔
دسمبر 2013 میں جب شرجیل خان سری لنکا کے خلاف یو اے ای سیریز کے لیے قومی ٹیم میں منتخب ہوئے تو حیدرآباد کے کرکٹ حلقوں میں یہ بات باعث فخر سمجھی گئی۔ شرجیل کے پڑوسیوں نے بھی اس کامیابی کا جشن منایا لیکن اب یہ عالم ہے کہ ان کو اپنے پڑوسیوں سے منہ چھپانا پڑ رہا ہے۔
ٹیسٹ اوپنر شرجیل خان کے والد سہیل خان بھی مقامی سطح پر بڑے اچھے کرکٹر رہے ہیں۔ وہ کرکٹ کی اچھی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں مگر ان کا دعویٰ ہے کہ اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل میں ان کے فرزند بے قصور ہیں اور ان کے ہاتھ صاف ہیں۔
شرجیل کو پورے پاکستان اور خصوصاَ حیدرآباد شہر کے باسیوں سے جو محبت، اپنائیت اور پیار ملا اس کا تو کوئی مول ہی نہیں۔
یہ غالباَ سال 2013 کی بات ہے جب ڈسٹرکٹ جامشورو کے ہیڈ کوارٹر شہر کوٹری میں ریجنل ٹی ٹوئنٹی کے فائنل میں شرجیل بطور مہمان کھلاڑی کھیلنے کیلئے آئے تھے اور اس میچ کا میں بھی چشم دید گواہ ہوں۔
شرجیل خان کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے گراؤنڈ میں موجود سینکڑوں لوگ ان کی کار کے پیچھے دیوانہ وار بھاگتے جا رہے تھے اور میچ کے اختتام پر اسٹائلش اوپنر کے ساتھ ایک تصویر لینے کے لیے جم غفیر امڈ آیا۔
اپنے ہیرو سے اس درجہ محبت اور جذباتی لگاؤ کے باوجود اگر اعتماد کو ٹھیس پہنچائی جائے تو مداح کرکٹ اور کھلاڑیوں سے محبت کرنا چھوڑدیں گے۔