سانحہءِ سیہون: دل دہلا دینے والے سات منظر
سانحہءِ سیہون میں ایک سو کے قریب ہلاکتوں کے بعد پورے ملک کی فضاء سوگوار ہے۔ سندھ کے تقریباً ہر ضلعے اور ڈویژن کے افراد ہلاک شدگان میں شامل ہیں۔
مزار پر آنے والے بے گناہ عقیدتمندوں پر دہشتگردوں نے جو قیامت ڈھائی وہ اپنی جگہ، مگر سندھ حکومت اور انتظامیہ کی نااہلی کی وجہ سے کئی ایسی جانیں گئی ہیں جو بروقت امداد دے کر بچائی جا سکتی تھیں۔
دھماکے کے وقت اور اس کے بعد متاثرین اور ان کے لواحقین پر کیا بیتی، اس کا احوال سات مناظر میں پیش ہے۔
پہلا منظر
دھماکہ عین اس وقت ہوا، جب لاڑکانہ کی امیراں اپنے 7 اور ڈیڑھ سالہ بیٹوں اور شوہر کے ساتھ درگاہ قلندر لال شہباز کے احاطے میں داخل ہوئی۔ لوگوں کا جم غفیراس کے سامنے تھا۔
دھماکے کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ اس کی گود میں موجود ڈیڑھ سالہ سمیر ہوا میں اڑ کر کہیں لوگوں کے ہجوم میں غائب ہوگیا۔ امیراں نے ادھر ادھر، آگے پیچھے، دائیں بائیں، اوپر اور نیچے اپنے سمیر کو ڈھونڈنے کی کوشش کی، مگر وہ ناکام رہی۔
لوگوں کا ہجوم کسی کا کوئی خیال کیے بغیر خود کو بچانے میں مصروف تھا اور پھر خود امیراں کی آنکھوں کی روشنی بھی ماند پڑ چکی تھی، اس کے سر اور جسم کے دوسرے حصوں سے بھی خون ٹپک کر قلندر کی درگاہ کے فرش کو رنگین کر رہا تھا۔
درد کی شدت، لوگوں کی بھگدڑ کا نہ رکنے والا سلسلہ اور چند منٹ پہلے تک کھیلتے کودتے سات سالہ ضمیر کا ساکن وجود امیراں کو وہاں مزید ٹھہرنے کی اجازت نہیں دے رہا تھا، لہٰذا وہ اپنے ایک مردہ بچے اور زخمی وجود کو روتی آنکھوں کے ساتھ قلندر کی درگاہ سے 130 کلومیٹر دور لاڑکانہ کے چانڈکا ہسپتال لے کر آئی۔
مگر اب امیراں کی آنکھوں کے آنسو خشک ہوچکے ہیں، اس کے حلق سے پانی اور کھانا نہیں اتر رہا، وہ ابھی تک دھماکے کی شدت سے کہیں اڑ جانے والے سمیر کو ڈھونڈ رہی ہے۔ کیا یہ حکومت، یہ ریاست، یہ نیشنل ایکشن پلان، یہ میڈیا اور یہ الفاظ امیراں کے سمیر کو ڈھونڈ کر لا سکتے ہیں؟
دوسرا منظر
نوری آباد کے گوٹھ حامد پالاری کی خوشیاں اس وقت ماتم میں تبدیل ہوگئیں جب چھوٹے سے گاؤں میں 12 لاشیں پہنچیں۔ اسی گاؤں کے ایک گھر میں قیامت صغریٰ اس وجہ سے برپا ہوئی کیوں کہ سانحے میں ایک ہی گھر کے ماں اور بیٹی سمیت 4 افراد بھی ہلاک ہوئے تھے۔
اسی گاؤں کے زخمی سندھ کے مختلف ہسپتالوں میں علاج کے لیے بھیجے گئے، جب کہ ایک شخص تاحال لاپتہ ہے، ایسی ہی حالت ضلع میرپور خاص کے تعلقہ سندھڑی کے شہر پھلہڈیوں میں بھی دیکھنے کو ملی، جب وہاں 3 ہندو نوجوانوں کی لاشیں پہنچیں، ایک ہی صوفی بزرگ کے مزار پر ہندو اور مسلمانوں کے ایک ساتھ ہونے اور ایک ساتھ مرنے سے جہاں سندھ کے روشن خیال اور کسی بھی مذہبی تفریق کے بغیر سماج کی عکاسی ہوتی ہے، وہیں یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ درگاہ قلندر لال شہباز کے دھماکے نے سندھ میں رہنے والی ہر آبادی پر اپنے اثرات چھوڑے ہیں۔
تیسرا منظر
شمالی سندھ کے ڈویژن لاڑکانہ اور سکھر سمیت حیدرآباد ڈویژن کے مختلف شہروں اور گوٹھوں میں اس وقت سوگ برپا ہوا، جب کئی امیدیں اور منتیں لے کر مسکراتے ہوئے قلندر کی درگاہ پر جانے والے مردوں، خواتین اور بچوں کی لاشیں پہنچیں۔ شہدادکوٹ سے لے کر میرو خان تک، لاڑکانہ سے لے کر ڈوکری تک، گمبٹ سے لے کر سوبھو ڈیرو تک، نئوں ڈیرو سے لے کر باڈھ تک، حیدرآباد سے لے کر ٹنڈو الہ یار تک اور دار الخلافہ کراچی تک، سندھ کے ہر حصے میں لاشیں اور زخمی گئے، اور ہر جگہ، ہر شہر میں خوشیاں ماند پڑتی گئیں۔
چوتھا منظر
دھماکے میں ہزاروں نہیں بلکہ محض سوا تین سو افراد زخمی ہوئے ہیں، مگر ملک کے دوسرے بڑے صوبے کا درجہ رکھنے کے باوجود سندھ کا کوئی ایسا ہسپتال نہیں ہے جہاں تمام مریضوں کا ایک ساتھ علاج کیا جائے۔
دھماکے کے بعد کئی لوگ اپنے پیاروں کو درد کی شدت سے روتے ہوئے کئی گھنٹوں کا سفر کرنے کے بعد جہاں جس ہسپتال میں لے گئے بدقسمتی سے وہاں نہ تو مناسب ڈاکٹرز دستیاب تھے اور نہ ہی زخموں سے چور لوگوں کو راحت پہنچانے کے لیے دوائیاں دستیاب تھیں۔ یہاں تک کہ ملک کی اعلیٰ ترین میڈیکل یونیورسٹیز میں شمار ہونے والی لیاقت میڈیکل یونیورسٹی ہسپتال کا انتہائی نگہداشت والا وارڈ بھی بند پڑا تھا، جب کہ ضلع جامشورو کے ہیڈکوارٹر ہسپتال کا ایمرجنسی وارڈ ہی بند تھا۔
پڑھیے: بیرونی ہاتھ کے ساتھ ساتھ اندرونی اعضاء کو بھی سنبھالنا ہوگا
ہسپتال انتظامیہ کے مطابق اتفاق سے دونوں ہسپتالوں کے وارڈز میں ضروری مرمتی کام ہو رہے تھے، جس وجہ سے وارڈز بند تھے۔ سندھ کے دیگر ڈویژنل ہیڈکوارٹرز لاڑکانہ اور نوابشاہ کے بھی میڈیکل یونیورسٹی ہسپتال میں ڈاکٹرز، عملے اور ادویات کی قلت تھی۔
اگر سندھ کے تمام شہروں کے ہسپتالوں میں سیہون دھماکے کے صرف 10 مریضوں کو بھی علاج کی بہتر سہولیات فراہم کی جائیں تو بھی متاثرین کے دکھ کم ہوسکتے ہیں، مگر افسوس کے سندھ کے ہسپتال شاید 10 زخمیوں کے علاج کی سہولت کے بھی اہل نہیں۔
پانچواں منظر
قلندر لال شہباز کی درگاہ نہ صرف سندھ بلکہ پاکستان کی بھی مصروف ترین درگاہوں میں شمار ہوتی ہے۔ یہاں آنے والے زائرین میں ہر طرح، ہر مسلک اور ہر مذہب کے لوگ ہوتے ہیں۔ قلندر لال شہباز جہاں مسلمانوں کے لیے محترم ہے، وہیں قلندر کی درگاہ پر آنے والوں میں ہندو اور عیسائیوں سمیت پاکستان میں بسنے والے دیگر مذاہب کے لوگ بھی شامل ہوتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ قلندر شہباز کے آباء و اجداد وسطی یورپ و ایشیا تک پھیلے ہوئے تھے، چنانچہ عرس کے موقع پر قلندر شہباز کی درگاہ پر ہندوستان، افغانستان، ایران اور یورپ کے کچھ ممالک کے زائرین بھی آتے ہیں۔
مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اتنی بڑی درگاہ ہونے کے باوجود یہاں صرف 5 پولیس اہلکار تعینات ہوتے ہیں، جو کبھی دوپہر تو کبھی شام ڈھلے ڈیوٹی پر آتے ہیں اور کبھی کبھار تو آتے ہی نہیں۔ اور پھر درگاہ پر وہ ڈیوٹی بھی کون سی دیتے ہیں؟ کبھی کسی نشہ آور کو پکڑتے ہیں تو کبھی جوڑے کی صورت میں آنے والے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو روک کر ان سے چند پیسے بٹور لیتے ہیں۔
اتنی بڑی درگاہ پر کوئی مستقل لیڈی پولیس اہلکار تعینات نہیں ہیں۔ محکمہ اوقاف کی جانب سے 2 خواتین مقرر کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے، مگر وہ بھی سندھ کے اساتذہ کی طرح گھوسٹ ہیں، جنہیں کبھی ڈیوٹی پر دیکھا ہی نہیں گیا۔
چھٹا منظر
ددھماکے میں ہلاک ہونے والے کم سے کم ایک درجن افراد ایسے ہیں، جن کی لاشیں دو سے زائد ٹکڑوں میں ہیں، ان لاشوں کی شناخت کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ کیا جائے گا، لیکن اس حوالے سے کوئی ٹائم فریم نہیں دیا جاسکتا کہ یہ ٹیسٹ کتنے ہفتوں یا مہینوں میں ہوگا۔ ڈی این اے ٹیسٹ کے حوالے سے دنوں کی گنتی کو تو بھول ہی جائیں، کیوں کہ بدقسمتی سے ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے بھی سندھ بھر میں ایک بھی لیبارٹری موجود نہ ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔
مگر محکمہ صحت اس بات پر بضد ہے کہ جامشورو کی لیاقت میڈیکل یونیورسٹی میں ڈی این اے کی سہولت فراہم کرنے والی لیبارٹری موجود ہے۔ محکمہ صحت اس ہسپتال میں ڈی این اے لیبارٹری کی موجودگی کا دعویٰ کر رہا ہے، جو خود درگاہ قلندر لال شہباز کے ضلع میں موجود ہے، اور اسی ہی ہسپتال کے آئی سی یو وارڈ کے گزشتہ دو ماہ سے بند ہونے کا بھی انکشاف ہوا ہے۔
مزید پڑھیے: سہون کے بعد بھی ثابت قدم رہنا ہے
اگر واقعی لیاقت ہسپتال میں ڈی این اے لیبارٹری ہے اور وہ ایک دن میں 10 ٹیسٹ کرنے کی سہولت فراہم کرتی ہے تو ایک درجن لاشوں کے ڈی این اے محض سوا ایک دن میں ہوسکتے ہیں، جب کہ سانحہ قلندر شہباز کو 4 دن گزر جانے کے باوجود اس ضمن میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
ساتواں منظر
اگر آپ نے کہیں یہ خبر پڑھی یا سنی ہے کہ سیہون دھماکے میں ہلاک ہونے والے افراد کی لاشوں کی باقیات کی بے حرمتی کی گئی ہے، تو یہ جان لیجیے کہ آپ نے جھوٹ ہی سنا ہوگا۔
سندھ حکومت اور سندھ پولیس اس بات پر بضد ہے کہ انہوں نے دھماکے کے بعد جائے وقوع سے تمام انسانی اعضاء ہٹا لیے تھے، مگر سندھ حکومت نے یہ نہیں بتایا کہ ہٹائے گئے اعضاء کہاں کیے گئے؟
سیہون کے رہائشیوں نے کئی انسانی اعضاء نکاسی آب کی نالیوں کے باہر دیکھے اور بے حرمتی کے خلاف احتجاج بھی کیا۔ پیپلز پارٹی کے رہنما اور قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے لیڈر خورشید شاہ کا یہ بیان بھی سامنے آیا کہ نالوں کے پاس ملنے والے انسانی اعضاء دھماکے کی شدت سے ایک کلو میٹر کے فاصلے تک اڑ گئے تھے۔
سیہون شہر وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کے آبائی شہر کا درجہ رکھتا ہے۔ اس شہر کے گرد و نواح سے ماضی میں بھی لوگ وزرائے اعلیٰ سمیت حکومت کے اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے، مگر باقی سندھ کی طرح سیہون کی حالت بھی ایسی ہے کہ اکثر کہا جاتا ہے کہ سندھ آج بھی موئن جو دڑو والی حالت میں موجود ہے۔
مگر شاید سندھ موئن جو دڑو کی حالت میں ہی ہوتا تو بھی اچھا ہوتا کیوں کہ موئن جو دڑو والا سندھ اپنی ترقی، صفائی، شعور، ثقافتی زندگی، امن و امان اور تعمیری لحاظ سے آج کے سندھ سے کہیں زیادہ بہتر تھا۔
لکھاری ڈان ڈاٹ کام کے اسٹاف ممبر ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس sagarsuhindero@gmail.com ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔