پاکستان

قلندر کی مقناطیسی شخصیت

یہ وہ جگہ ہے جو لوگوں سے ان کا فرقہ، زبان، اور سیاسی خیالات پوچھے بغیر انہیں کھلے دل سے خوش آمدید کہتی ہے۔

سندھ کا صوفیاء اور تصوف سے صدیوں پرانا رشتہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں اور عظیم صوفیائے کرام کے مزاروں پر عقیدت مند نہ صرف سندھ بلکہ ملک بھر سے آتے ہیں۔

حضرت لعل شہباز قلندر بھی ایک ایسے ہی صوفی بزرگ ہیں، جن کے مزار پر جمعرات (16 فروری) کی شام ایک خوفناک خودکش دھماکے میں درجنوں افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔

سندھ کی سرزمین پر کئی مقدس ہستیاں مدفون ہیں، جن میں کراچی میں عبداللہ شاہ غازی، بھٹ شاہ میں شاہ عبداللطیف بھٹائی اور خیرپور کے علاقے درازا میں سچل سرمست شامل ہیں، سیہون میں لعل شہباز قلندر کا مزار صوبے میں تصوف کی تاریخ کی ایک اہم کڑی ہے۔

مزید پڑھیں: درگاہ لعل شہباز قلندر میں خودکش دھماکا

برِصغیر پاک و ہند پر کئی صوفی طریقوں کا اثر رہا ہے۔ مرکزی طریقوں میں چشتی، قادری اور سہروردی سلسلے ہیں۔ خیبر پختونخواہ سے لے کر بنگال تک ان سلسلوں کی شاخیں اور ذیلی شاخیں پھیلی ہوئی ہیں اور انہوں نے مسلمانوں کے ایک ہزار سالہ دورِ حکومت کے دوران یہاں اسلام پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا۔

لیکن پھر بھی صوفیائے کرام میں سے بہت کم ایسے ہیں جنہیں 'قلندر' کا خطاب ملا، کیوں کہ اس خطاب کا حقدار بننے کے لیے معرفت کی بلند ترین منزل تک پہنچنا پڑتا ہے۔ برِصغیر میں 2 مشہور قلندر پانی پت کے بو علی شاہ اور سیہون کے لعل شہباز ہیں۔

ظاہر ہے کہ لعل شہباز بھی صرف ایک خطاب ہے۔ ان بزرگ کا حقیقی نام سید عثمان مروندی قرار دیا جاتا ہے، کہا جاتا ہے کہ وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان سے ہیں اور چھٹے امام حضرت جعفر الصادق کی نسل سے ہیں۔

سندھ میں حضرت لعل شہباز قلندر کی آمد کے بارے میں کئی روایات موجود ہیں، کچھ کہتے ہیں کہ وہ اپنے دور کے چند دیگر صوفیاء حضرت بہاؤالدین ذکریا سہروردی (ملتان، پنجاب) اور بابا فرید گنج شکر (پاک پتن، پنجاب) کے ہمراہ سندھ سے گزرے اور پھر یہیں سکونت اختیار کرلی۔

یہ بھی پڑھیں:سیہون دھماکے کے بعد سوگ کا سماں

ان دعووں کی تصدیق یا تردید تو تاریخ دان ہی کر سکتے ہیں، مگر عام طور پر مانا جاتا ہے کہ سندھ میں لعل شہباز قلندر بارہویں صدی کے اواخر یا تیرہویں صدی کے اوائل میں تشریف لائے۔

لعل شہباز قلندر سے منسوب کی جانے والی مشہور ترین رباعی حیدریم قلندرم مستم ہے، جس میں قلندر حضرت علی کے لیے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ اس رباعی کو کئی قوالیوں اور نوحوں میں شامل کیا گیا ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قلندر کو حضرت محمد کے خاندان سے کس قدر عقیدت تھی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ چند محققین کے نزدیک یہ اشعار بو علی شاہ قلندر کے ہیں۔ شاید یہ بات زیادہ اہم نہیں کہ یہ الفاظ کس کے ہیں، بلکہ اہم یہ ہے کہ ان کے پیچھے کون سے جذبات موجود ہیں۔

قلندر سے ایک اور رسم وابستہ ہے اور وہ دھمال کی ہے۔ یہ ایک طرح کا صوفی رقص ہے جو وجد میں آ کر کیا جاتا ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ جمعرات کو جس وقت دھماکا ہوا اس وقت یہی رقص جاری تھا۔

مزید پڑھیں:قلندر کا مزار کہاں ہے اور اتنی ہلاکتیں کیوں ہوئیں؟

کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ دھمال فارسی لفظ 'دہ میل' (دس میل) کی بگڑی ہوئی صورت ہے اور شاید حقیقی روپ میں یہ رقص نہ ہو بلکہ شہدائے کربلا کو قلندر کا خراجِ عقیدت ہو۔

قلندر کا عرس یا یومِ وفات ہر سال ماہِ شعبان میں منایا جاتا ہے، ملک بھر کے دیگر مزارات اور خانقاہوں کی طرح قلندر کا مزار بھی ایسی جگہ ہے جہاں رسمی و غیر رسمی، قدامت پسند و جدت پسند، مادہ پرست و روحانیت پسند افراد ملتے ہیں۔

مختلف فرقوں اور مذاہب کے لوگ مزار کے گرد جمع ہوتے ہیں، کچھ دنیا کے جھمیلوں سے فرار چاہنے کے لیے اور کچھ قلندر سے محبت کی وجہ سے۔

جب بھی آپ سیہون سے گزریں، خاص طور پر رات کے وقت، تو قلندر کے مزار کا سنہرا گنبد مسافروں کے لیے ایک روح پرور منظر پیش کرتا ہے۔ اسے دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حقیقت اس سے بھی پرے ہے۔

اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ قلندر کی درگاہ اپنے آپ میں جھانکنے کی دعوت دیتی ہے، یہ وہ جگہ ہے جو لوگوں سے اُن کا فرقہ، زبان اور سیاسی خیالات پوچھے بغیر انہیں کھلے دل سے خوش آمدید کہتی ہے۔

شاید یہی وہ اتحاد اور قبولیت ہے جس کی وجہ سے سیہون جیسی جگہیں اس طرح کے حملوں کا نشانہ بنتی ہیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 17 فروری 2017 کو شائع ہوا

انگلش میں پڑھیں۔