'سیہون خودکش حملہ ریاستی اداروں کی ناکامی'
پاکستان میں دہشت گردی کی نئی لہر سے ایک طرف جہاں قبائلی علاقوں میں گذشتہ 2 سال سے زائد جاری فوجی آپریشن اور نیشنل ایکشن پلان کے بعد حکومتی اقدامات پر تشویش پیدا ہوئی، وہیں ان واقعات کے بعد پاک فوج کی ممکنہ نئی حکمتِ عملی سے متعلق بہت سی قیاس آرائیوں نے بھی جنم لیا ہے۔
سیہون شریف میں لعل شہباز قلندر کے مزار میں خود کش بم دھماکے کے فوری بعد پاک-افغان سرحد پر طورخم بارڈ کی غیر معینہ مدت کے لیے بندش اور آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کا دہشت گردوں سے خون کے ہر قطرے کا بدلہ لینے سے متعلق بیان اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ شاید اب پالیسی میں کوئی تبدیلی کی جائے۔
مزید پڑھیں: 'اب خون کے ہر قطرے کا فوری بدلہ لیا جائے گا'
اسی حوالے ڈان نیوز کے پروگرام 'بول بول پاکستان' میں گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کار اور صحافی باقر سجاد کا کہنا تھا کہ اس وقت سیکیورٹی ادارے اس بات پر غور کررہے ہیں کہ یہ حملے افغانستان میں موجود گروپس کررہے ہیں جو کہ پھر سے منظم ہوچکے ہیں اور اس میں بھارت کی بھی مداخلت شامل ہے جو پاکستان کو غیر مستحکم دیکھنا چاہتا ہے۔
باقر سجاد کا کہنا تھا کہ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ حالیہ دنوں میں جو حملے کیے گئے ان میں بیرونی ہاتھ ملوث ہے، لیکن جس طرح سے لعل شہباز قلندر کے مزار کو نشانہ بنایا گیا، یہ بظاہر ریاستی اداروں کی ناکامی ہے جس کی وجہ سے دہشت گرد اپنے مقاصد میں کامیاب ہورہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ اگرچہ یہ حملے وہی گروپس کررہے ہیں جو آپریشن ضربِ عضب کے بعد افغانستان فرار ہوگئے تھے، لیکن وہ وہاں سے بیٹھ کر یہ کام نہیں کرسکتے، یہاں اب بھی ایک نیٹ ورک موجود ہے جو ان کی مدد کرتا ہے۔
باقر سجاد کا کہنا تھا کہ ماضی میں بھی بڑے دہشت گرد حملے ہوئے، لیکن اس مرتبہ مختلف مقامات کو سلسلہ وار نشانہ بنایا گیا، جس کی ابتداء جنوری کے آخر میں کرم ایجنسی سے ہوئی تھی۔
اس سوال پر کیا پاکستان اب افغانستان میں خود سے کسی قسم کی سرجیکل اسٹرائیکس بھی کرسکتا ہے؟ تو ان کا کہنا تھا کہ سفارتی طور پر دیکھا جائے تو ایسا ممکن نہیں اور نہ ہی پاکستان کے پاس یہ آپشن موجود ہے کہ وہ وہاں پر موجود دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرے۔
باقر سجاد کا کہنا تھا کہ 'اگر ایسا ہوا تو اس سے نہ صرف افغانستان میں امریکی افواج کو موقع ملے گا بلکہ مشرقی سرحد سے بھارت بھی کشیدگی پیدا کرسکتا ہے'۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ بھارت اس وقت ویسے بھی موقع کی تلاش میں ہے، لہذا اس سے حالات میں مزید خرابی ہوسکتی ہے۔
خیال رہے کہ گذشتہ روز سیہون شریف میں لعل شہباز قلندر کے مزار کے احاطے میں ہونے والے خود کش حملے میں 70 سے زائد افراد ہلاک اور 150 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: درگاہ لعل شہباز قلندر میں خودکش دھماکا، 70 افراد جاں بحق
دھماکا درگاہ لعل شہباز قلندر کے احاطے میں اُس وقت ہوا جب وہاں دھمال ڈالی جارہی تھی، جس کے بعد لوگوں میں بھگدڑ مچ گئی اور درگاہ کے احاطے میں آگ لگ گئی۔
یاد رہے کہ گزشتہ سال نومبر میں صوبہ بلوچستان کے ضلع خضدار میں بھی درگاہ شاہ نورانی میں بم دھماکا ہوا تھا، جس کے نتیجے میں 50 سے زائد افراد ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔
دھماکے میں ہلاک اور زخمی ہونے والوں میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی تھی۔
دہشت گردی کی حالیہ لہر 13 فروری کو لاہور کے مال روڈ پر ہونے والے دھماکے سے شروع ہوئی جہاں پنجاب اسمبلی کے سامنے دہشت گردوں نے خودکش حملہ کرکے پولیس افسران سمیت 13 افراد کو ہلاک اور 85 کو زخمی کردیا تھا۔
یہ خبر 16 فروری 2017 کو نشر ہونے والے ڈان نیوز کے پروگرام 'بول بول پاکستان' سے عادل عزیز خانزادہ نے تحریر کی