نقطہ نظر

کہ ہم ہیں اس سرزمیں پہ جیسے حرف تنہا

یہ مختصر تحریریں ایک احتجاج ہیں، جو اس طبقے تک پہنچ رہا ہے جو سماجی انصاف اور شناخت کا طویل عرصے سے آرزومند ہے۔

نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا

کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا

غالب اپنے اس شعر میں فارس کی قدیم روایت کا حوالہ دیتے ہیں کہ جس میں انصاف کے حصول کی خاطر فریادی عدالتوں میں کاغذی پیرہن پہن کر داخل ہوتے تھے۔

بلاشبہ ایک ایسے ملک کے لیے جو کم شرح خواندگی رکھتا ہے، تحریری لفظ پاکستانی معاشرے کا ایک اہم حصہ ہیں۔ پورے کراچی کے گلی کوچوں میں وال چاکنگ سے رنگی دیواروں پر سیاسی جلسوں کے اعلانات، اشتہارات اور سیاسی رہنماؤں کے خلاف اور ان کے حق میں پیغامات لکھے ہوتے ہیں۔

کراچی میں وال چاکنگ —D.Kazi, CC BY-NC-ND

راتوں رات سیاسی قوت کے اظہار یا کسی سیاسی جماعت کی اندرونی رسہ کشی کے اشاریے کے طور پر دیواروں پر نمودار ہونے والی تحریر کو انٹیلیجنس ایجنسیاں اور پریس پکڑ لیتی ہیں۔ کبھی کبھار تو دیواروں پر مخصوص افراد کے خلاف دھمکیاں لکھی ہوتی ہیں جیسے "آئندہ نہ دیکھوں" جو کہ اکثر "باسز" اثر و رسوخ والے مقامی اشخاص کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کے لیے لکھتے ہیں۔ وال چاکنگ عام طور پر اردو خوش نویسانہ طرز میں لکھی ہوتی ہیں۔

بے ترتیبی سے کیے گئے اسپرے سے لکھا "پرفیوم چوک" دیکھنے اور پڑھنے والے کو ایک انوکھا ہی پیغام حاصل ہوتا ہے۔ متجسس لوگوں کو پتہ چلا کہ یہ پیغام گلستان جوہر میں عطر بیچنے والے ایک چھوٹے اسٹال کے اس مالک نے لکھا تھا، جس کا اسٹال بھتہ نہ دینے پر بار بار توڑ دیا جاتا تھا۔

لوگوں کا بیانیہ

ملکوں کے پاس کئی بیانیے ہوتے ہیں: ریاستی بیانیہ، دوستوں اور اتحادیوں کے بیانیے، دشمنوں کے بیانیے، اخلاقیات کے پاسداروں کا بیانیہ؛ اور پھر عوام کا ایک پیچیدہ، کثیر السطحی بیانیہ۔ یہ بیانیے ماہر سماجیات، مؤرخین، ادبی نقاد، فن کاروں، فلم سازوں، موسیقاروں، ناول نگاروں اور شعراء کے ذہنوں میں بسے ہوتے ہیں۔ لوگوں کی اصل روح سے ہم آہنگی کے لیے آپ کو سطحی لہروں سے نیچے گہرائیوں تک جانا پڑتا ہے، مگر اتفاقیہ طور پر خفیہ بیانیے نمودار ہو کر دکھائی دیتے ہیں اور خود کو تشریح کے لیے پیش کر دیتے ہیں۔

پاکستان میں شاعری حقیقی طور پر ایک ایسی ہی صورت ہے۔ کلاسیکی صورتوں میں یہ مذہبی گیت جیسے نعتیں، قوالیاں اور مرثیے ہو سکتے ہیں۔

مگر اکثر شاعری میں رومانوی فلمی گانوں کو بھی شمار کیا جاتا ہے؛ وہ رنگین تشبیہات بھی جو کہ مشاعروں اور شاعری تقاریب کے دوران ترتیب و بیان کی جاتی ہیں۔ اردو شاعری کی جس صورت کو ترجیح دی جاتی ہے، وہ غزل یا شعر ہے جس کی جڑیں عربی ادب بذریعہ فارسی شاعری سے جا ملتی ہیں۔ غزلیں نفیس تشبیہات سے بنتی ہیں جن میں ظاہری طور پر محبت، اشتیاق، جدائی اور وصال کے بارے میں ذکر ہوتا ہے مگر اس کے باطن میں روحانی عشق سے لے کر مقامی سیاست تک پر تبصرہ ہوتا ہے۔

ایک فرد کی آواز

پاکستان کی سجی دھجی ٹرانسپورٹ اپنی رنگین سجاوٹ اور تصاویر کی وجہ سے خاصی مقبولیت کی حامل ہے۔ ہم اکثر ان اشعار کو نظر انداز کر دیتے ہیں جو تمام ٹرکس، بسوں اور رکشوں کا ایک ضروری حصہ ہیں۔

یہ پڑھنے والے اجنبی کے ساتھ محو گفتگو ہونے کی ایک کوشش ہے، ایک ایسے سماج میں ایک فرد کی آواز ہے جو عام آدمی کو خاموشیوں کے سائے میں رکھتا ہے۔ کانوں میں ہونے والی یہ سرگوشیاں، یہ تحاریر ذاتی احساسات، اشتعال یا محض غصہ، ہار، خواہش یا ایک لمحے کی جھلک کا اظہار کرتی ہیں۔

ہنگری کے فلسفی فرینس ہورشر کہتے ہیں کہ گفتگو "انسان کی ذات کو عملی زندگی سے آزاد کرتی ہے اور سکون بخش احساس پیدا کر دیتی ہے۔" ایک فرضی کمیونٹی سے مخاطب یہ اظہار عوامی دائرے میں کسی نہ کسی روپ میں لکھے ہوتے ہیں۔ یہ تحاریر استحصال کے شکار شہریوں کی جانب سے فنِ تحریر و تالیف پر حق جتانے کی کوشش ہیں۔

2010 میں جاری کردہ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق 2 لاکھ 60 ہزار 760 کلومیٹر کی سڑکوں پر 6 لاکھ کمرشل گاڑیاں، جن میں بسیں، ٹرک اور تین پہیوں والی گاڑیاں (جن میں رکشے بھی شامل ہیں) دوڑتی ہیں۔ ان گاڑیوں میں سے زیادہ تر اپنے ساتھ تحاریر لے کر چل رہی ہوتی ہیں۔

بائیں سے دائیں جانب: پاکستان یوتھ الائنس کا ایک رکشہ امن کا پیغام لیے ہوئے ہے؛ پولیس کی گاڑی پر بڑی ہی عمدہ لکھائی میں لکھا ہے کہ "سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گا بنجارہ"؛ میلبرن میں ایک ٹرام کراچی کی بسوں کی طرز پر سجی ہوئی ہے —CC BY-NC-ND

پاکستان کو ایک جنگجو، غصیلے ملک کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جو انتہاپسندوں کی فیکٹری ہے۔ مگر سجی دھجی ٹرانسپورٹ پر لکھی شاعری آپ کو ایک دوسری ہی کہانی بیان کرتی نظر آئے گی۔ ماں کی دعا جنت کی ہوا، گاڑیوں پر سب سے عام طور پر لکھا جانے والا جملہ ہے اس کے بعد دیکھ مگر پیار سے اور اب ایک نیا جملہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ، جیو اور جینے دو۔

شاعری کا موضوع ٹرانسپورٹ کی اقسام کے ساتھ بدلتا ہوا نظر آتا ہے۔ پورے ملک میں طویل فاصلے طے کرنے والے مال بردار ٹرکوں پر ان غیر محفوظ سفروں جن کا وہ سامنا کرتے ہیں اور اپنے گھروالوں سے دور ہونے کا احساس جھلک رہا ہوتا ہے۔

روڈ سے دوستی سفر سے یاری

دیکھ پیارے زندگی ہماری

شہر میں پھرتی بسوں پر عام طور پر زیادہ تر تفریحی اور چٹپٹی تحریر لکھی ہوتی ہیں:

دل برائے فروخت

قیمت ایک مسکراہٹ

آغازِ جوانی ہے ہم جھوم کر چلتے ہیں

دنیا یہ سمجھتی ہے ہم پی کر نکلتے ہیں

مگر اتفاقی طور پر کہیں کہیں سنجیدہ موضوعات پر مبنی عبارت بھی نظر آ جاتی ہے:

پتہ کیا خاک بتائیں نشان ہے بے نشان اپنا

لگا بیٹھے بستر جہاں وہیں سمجھو مکان اپنا

محبت نہ کر امیروں سے جو برباد کرتے ہیں

محبت کر غریبوں سے جو ہمیشہ یاد کرتے ہیں

بائیں سے دائیں: ایک ٹرک پر لکھا ہے کہ، "اے بلبل تم کیوں روتے ہو، کیا تمہارے باغ میں پھول نہیں، رونا تو ہمیں چاہیے جس کی زندگی میں سکون نہیں، ایک ٹرک کے پیچھے صرف "لو" لکھا ہے؛ چمک پٹی سے سجی ہوئی ایک مسافر بس — D.Kazi, CC BY-NC-ND

بسوں اور ٹرکوں کا کاروبار تو عام طور پر کافی منافع بخش ہوتا ہے۔ دوسری جانب رکشا عام طور پر مالک خود چلاتا ہے اور پاکستانی سماج میں رہنے والے سب سے کم مراعات یافتہ طبقے کے بارے میں ہمیں سمجھ فراہم کرتا ہے۔

ٹرکوں اور بسوں پر جس طرح غزل کے اشعار نظر آتے ہیں، رکشوں پر اس کے بجائے کاش، بکھرے موتی، زخمی پرندہ، آخری گولی جیسے مبہم شاعرانہ جملے جلی حروف میں لکھے ہوتے ہیں۔ کبھی کبھار تو رکشا صرف محبوب بیٹی یا صوفی بزرگ کا نام لیے سڑکوں پر دوڑتا ہے۔

مزاحیہ اشعار یا جملے تمام اقسام کی ٹرانسپورٹ میں عام ہیں جو ایک لمحے کے لیے ہی سہی مگر زندگی کے مسائل اور تکالیف کو قابل برداشت بنا دیتے ہیں۔ یہ ایک چکمہ ہے جو ہمیں دو لائنوں کے درمیان لکھی تحریر پڑھنے پر مجبور کرتا ہے، جو کہ طبق دار اور اکثر پوشیدہ مزاج کے حامل پاکستانی معاشرے کا ایک ضروری حصہ ہے۔

عربی شاعری نے اردو کو ہجو یا طنزیہ شاعری کا اثر بخشا۔ جہاں قطعہ قبائلی ہیروز کے اعلٰی اخلاق کی تعریف بیان کرتا، وہاں ہجو سے مخالف قبائل کی بدنامی کی جاتی۔

تحاریر میں صوفی شاعری کا اثر بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ پاکستانی مسلمانوں کی اکثریت بریلوی مکتب فکر سے تعلق رکھتی ہے جو کہ تصوف میں پیوستہ ہے۔ زیادہ تر سجی دھجی گاڑیاں صوفی بزرگوں کے مزاروں پر مانگی جانے والی دعاؤں اور وہاں سے حاصل ہونے والے پیغامات کو ساتھ لے کر چلتی ہیں۔

کھٹے - میٹھے یا سیاہ مزاح کا یہ مزاج پاکستانی سماج میں پھیلا ہوا ہے اور جو اس خطے میں لوگوں پر قابض ان قوتوں کے ختم ہونے کے بعد پھوٹا ہے جو 1800 قبل مسیح سے اب تک بار بار حملہ آور ہوتی رہیں، ہر حملہ آور نے طاقتور حکمران اشرافیہ پیدا کرتے ہوئے اور بڑی حد تک عام شہریوں کی زندگیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی ثقافت تھوپ دی۔

اس لحاظ سے یہ مختصر تحریریں ایک احتجاج ہیں، جو اس طبقے تک پہنچ رہا ہے جو سماجی انصاف اور شناخت کا طویل عرصے سے آرزومند ہے۔ کہ جیسے ن م راشد نے لکھا:

کہ ہم ہیں اس سرزمیں پہ جیسے وہ حرف تنہا

خموش و گویا


یہ مضمون سب سے پہلے دی کنورزیشن پر شائع ہوا اور بہ اجازت یہاں شائع کیا گیا ہے۔

دریہ قاضی

دریہ قاضی جامعہ کراچی کے شعبہء وژؤل اسٹیڈیز کی سربراہ ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔