کہ ہم ہیں اس سرزمیں پہ جیسے حرف تنہا
یہ مختصر تحریریں ایک احتجاج ہیں، جو اس طبقے تک پہنچ رہا ہے جو سماجی انصاف اور شناخت کا طویل عرصے سے آرزومند ہے۔
نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا
غالب اپنے اس شعر میں فارس کی قدیم روایت کا حوالہ دیتے ہیں کہ جس میں انصاف کے حصول کی خاطر فریادی عدالتوں میں کاغذی پیرہن پہن کر داخل ہوتے تھے۔
بلاشبہ ایک ایسے ملک کے لیے جو کم شرح خواندگی رکھتا ہے، تحریری لفظ پاکستانی معاشرے کا ایک اہم حصہ ہیں۔ پورے کراچی کے گلی کوچوں میں وال چاکنگ سے رنگی دیواروں پر سیاسی جلسوں کے اعلانات، اشتہارات اور سیاسی رہنماؤں کے خلاف اور ان کے حق میں پیغامات لکھے ہوتے ہیں۔