پاکستان

’خواتین کی 10 فیصد لازمی ووٹنگ کی مخالفت‘

جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام نے خواتین کی 10 فیصد لازمی ووٹنگ کی مخالفت جب کہ دیگر سیاسی جماعتوں نے حمایت کی۔

اسلام آباد: پارلیمانی کمیٹی برائے انتخابی اصلاحات کی ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں جمعیت علماء اسلام فضل الرحمٰن (جے یو آئی ف) اور جماعت اسلامی (جے آئی) نے دیگر جماعتوں کی جانب سے پیش کردہ تجویز کی مخالفت کی، جس کی وجہ سے انتخابات میں خواتین کے 10 فیصد لازمی ووٹ کے معاملے پر اتفاق رائے نہیں ہوسکا۔

جے یو آئی ف اور جماعت اسلامی انتخابات میں خواتین کی 5 فیصد لازمی ووٹنگ کے اپنے مؤقف پر اٹکی رہیں، جب کہ دیگر سیاسی جماعتوں نے انتخابی نتائج کی توثیق کے لیے خواتین کی کم سے کم 10 فیصد لازمی ووٹنگ کا مطالبہ کیا۔

اِن کیمرہ اجلاس کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی رکن اسمبلی اور کمیٹی کی رکن شازیہ مری نے میڈیا کو بتایا کہ سیاسی جماعتیں انتخابات کے دوران خواتین کے ووٹنگ کے معاملے پر متفق نہیں ہوسکیں۔

انتخابی اصلاحات پیکج اور الیکشن ایکٹ 2017 میں اس بات کی تجویز دی گئی تھی کہ انتخابات کے دوران خواتین ووٹرز کی کم سے کم 10 فیصد شرکت لازمی ہونی چاہئیے۔

یہ بھی پڑھیں: خواتین ووٹرز پر پابندی کے لیے جرگہ متحرک

تجویز میں مزید کہا گیا کہ’ اگر اتفاق سے کسی حلقے میں 10 فیصد سے کم خواتین کے ووٹ پڑتے ہیں تو الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کو اس حلقے میں دوبارہ انتخابات کرانے کا حق ہونا چاہئیے‘۔

جماعت اسلامی کے رہنما طارق اللہ نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی پارٹی کو خواتین کی 10 فیصد لازمی ووٹنگ پر کچھ تحفظات ہیں، 'ووٹ ڈالنے کے لیے کسی کے اوپر اور خاص طور پر خواتین پر دباؤ نہیں ڈالنا چاہیے'۔

ان کا کہنا تھا کہ اجلاس میں اراکین قومی اسمبلی کے ترقیاتی فنڈز اور انتخابی مہم کی فیس سمیت دیگر معاملات پر بھی بحث کی گئی، مگر اجلاس میں بیرون ملک رہائش پذیر پاکستانیوں کے ووٹ ڈالنے اور بائیو میٹرک یا ای ووٹنگ سسٹم سے متعلق معاملات پر کوئی بات نہیں کی گئی۔

جماعت اسلامی رہنما نے بتایا کہ کمیٹی کے زیادہ تر اراکین نے بیرون ملک رہنے والے پاکستانیوں کو ووٹ ڈالنے کا حق دینے کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ کمیٹی کو بتایاگیا کہ بائیو میٹرک یا ای سسٹم ووٹنگ متعارف کرانے کے لیے الیکشن کمیشن کو 40 ، 50 ارب کی ضرورت ہوگی۔

ذیلی کمیٹی کے چیئرمین وزیر قانون زاہد حامد نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ 24 ادارے اور تنظیمیں اپنی 600 سفارشات کمیٹی میں جمع کرا چکی ہیں، ذیلی کمیٹی ان سفارشات کا جائزہ لینے کے بعد مرکزی کمیٹی کو اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔

مزید پڑھیں: انتخابی اصلاحات کیسی ہونی چاہیئں؟

وزیر قانون نے دعویٰ کیا کہ انتخابات کے دوران مبصرین اور میڈیا پر کوئی پابندی عائد نہیں کی جائے گی، اس حوالے سے فافن اور دیگر مبصرین کے خدشات بے بنیاد ہیں۔

خیال رہے کہ حال ہی میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے انتخابی اصلاحات پیش کرتے ہوئے اس بات کا مطالبہ کیا تھا کہ مئی 2018 کے عام انتخابات کو مزید شفاف بنانے کے لیے الیکشن کمیشن کو مالی و انتظامی حوالے سے خود مختار بنایا جائے۔

تحریک انصاف نے یہ بھی مطالبہ کیا تھا کہ الیکشن کمیشن کا بجٹ سپریم کورٹ کی طرح خود مختار ہونا چاہئیے، اس میں حکومت کا کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہئیے، جب کہ اپنے ضابطہ اخلاق بنانے کے حوالے سے کمیشن کو انتظامی طور پر بھی مکمل آزاد ہونا چاہئیے۔


یہ خبر 16 فروری 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی