پاکستان

مہمند:خودکش دھماکے میں 3 سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 5 جاں بحق

تحصیل غلانئی میں خودکش حملہ آوروں کی پولیٹیکل ایڈمنسٹریشن کی رہائشی کالونی میں داخل ہونےکی کوشش، روکنے پرخود کو اڑالیا۔
| |

پشاور: وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے فاٹا کی مہمند ایجنسی میں خودکش حملے کے نتیجے میں خاصہ دار فورس کے 3 اہلکاروں سمیت 5 افراد جاں بحق جبکہ 3 زخمی ہوگئے۔

وہ مقام جہاں خودکش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑایا—۔فوٹو/ عبداللہ ملک

پاک افواج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق مہمند ایجنسی کی تحصیل غلانئی میں 2 خودکش حملہ آوروں نے پولیٹیکل ایڈمنسٹریشن کی رہائشی کالونی میں داخل ہونے کی کوشش کی۔

تاہم لیویز فورس نے حملہ آوروں کو اندر جانے سے روکا، جس پر ایک حملہ آور نے مرکزی گیٹ کے قریب اپنے آپ کو اڑا لیا، جبکہ دوسرے حملہ آور کو سیکیورٹی فورسز نے ہلاک کردیا۔

دھماکے کے نتیجے میں 3 سیکیورٹی اہلکار اور 2 عام شہری جاں بحق جبکہ 3 زخمی ہوئے، جنھیں طبی امداد کے لیے ہسپتال منتقل کردیا گیا۔

آئی ایس پی آر کے مطابق سیکیورٹی ایجنسیز کو افغانستان سے خود کش بمباروں کی مہمند ایجنسی میں داخلے کی رپورٹس ملی تھیں، تاہم دہشت گردی کی کوشش ناکام بنادی گئی۔

مزید کہا گیا کہ واقعے کے بعد مچنی اور غلانئی کے علاقوں میں سرچ اور اسٹرائیک آپریشن کا آغاز کردیا گیا۔

دوسری جانب واقعے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے الگ ہونے والے گروپ جماعت الاحرار نے قبول کرنے کا دعویٰ کیا۔

مزید پڑھیں:مہمند ایجنسی: نماز جمعہ میں خودکش دھماکا

اس سے قبل ستمبر 2016 میں بھی مہمند ایجنسی کی تحصیل انبار کے علاقے پائی خان میں نماز جمعہ کے دوران خود کش دھماکا ہوا تھا، جس کے نتیجے میں 30 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

اس دھماکے کی ذمہ داری بھی جماعت الاحرار نے قبول کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

واضح رہے کہ مہمند ایجنسی افغان سرحد کے ساتھ پاکستان کے قبائلی علاقے میں وفاق کے زیر انتظام علاقوں میں سے ایک ہے.

پاک افغان سرحد پر ان قبائلی علاقوں میں فوج متعدد آپریشنز کر چکی ہے جس کے بعد یہاں سیکیورٹی صورتحال بہتر کرنے کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔

مہمند ایجنسی کے ساتھ واقع خیبر ایجنسی میں گذشتہ 2 برس میں 2 آپریشن خیبر-ون اور خیبر-ٹو کیے گئے جبکہ حکومت اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے درمیان امن مذاکرات کی ناکامی اور کراچی ایئرپورٹ پر حملے کے بعد پاک فوج نے 15 جون 2014 کو شمالی وزیرستان میں آپریشن ضربِ عضب شروع کیا تھا، جو اب تک جاری ہے۔

یہ بھی پڑھیں:مہمند ایجنسی میں سرکاری اسکول دھماکے سے تباہ

دوسری جانب مہمند ایجنسی میں شدت پسندوں کی جانب سے تعلیمی اداروں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

فاٹا میں سب سے زیادہ اسکول مہمند ایجنسی میں تباہ کیے گئے، جن کی تعداد 127 ہے اور جس میں سب سے زیادہ 64 اسکول تحصیل صافی میں تباہ ہوئے، شدت پسند عناصر نے کئی سال پہلے مہمند ایجنسی کے واحد ڈگری کالج کو بھی تباہ کردیا تھا جس کے بعد آج تک وہاں تدریسی عمل شروع نہ ہوسکا۔