افغان مہاجرین کی 'جبراً واپسی': یو این ایچ سی آر پر تنقید
کابل: انسانی حقوق کے ادارے ہیومن رائٹس واچ نے پاکستان کی جانب سے افغان مہاجرین کے انخلاء کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کو اس انخلاء میں سہولت فراہم کرنے میں ملوث قرار دے دیا۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق 76 صفحات پر مشتمل 'پاکستانی دباؤ، اقوام متحدہ کی مدد: افغان مہاجرین کی جبری واپسی' کے نام سے شائع کی گئی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہزاروں افغان باشندوں کو پاکستان سے وطن واپسی پر مجبور کیا جارہا ہے جس سے ان افراد میں غربت، بیروزگاری اور انتشار کی شرح میں اضافہ ہوگا اور یہ اُن 5 لاکھ سے زائد متاثرین کا حصہ بن جائیں گے جو افغانستان میں موجود ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ میں محقق گیری سمپسن کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ 'کئی دہائیوں تک افغان مہاجرین کی میزبانی کے بعد 2016 کے دوران پاکستان کی جانب سے حالیہ دور میں دنیا کے سب سے بڑا مہاجرین مخالف کریک ڈاؤن کا آغاز کیا گیا تاکہ ان پر واپس جانے کے لیے دباؤ ڈالا جاسکے۔
رپورٹ میں شامل 26 سالہ افغان شخص، جسے اپنی بیوی اور 2 بچوں کے ہمراہ کابل جانے پر مجبور کیا گیا، کے بیان کے مطابق 'چونکہ پاکستان کی جانب سے دھمکانے اور بدسلوکی کرنے کے خلاف اقوام متحدہ کا مہاجرین کے لیے کام کرنے والا ادارہ (یو این ایچ سی آر) عوامی طور پر سامنے نہیں آیا لہذا بین الاقوامی ڈونرز اس معاملے پر پاکستانی حکومت اور اقوام متحدہ پر زور ڈالیں تاکہ بقیہ افغان مہاجرین کا تحفظ یقینی بنایا جاسکے'۔
مذکورہ شخص نے اپنے بیان میں مزید بتایا کہ گذشتہ سال جولائی میں رات 3 بجے ان کے گھر 11 فوجی اور پولیس اہلکار بنا اجازت داخل ہوئے اور ہمارا تمام سامان فرش پر پھینک دیا، ان اہلکاروں نے مہاجر کارڈ دیکھنے کا مطالبہ کیا اور ان کارڈز کو ایکسپائر قرار دے دیا۔
انھوں نے مزید بتایا، 'اس کے بعد ان افراد نے ہماری تمام رقم چھین کر ہمیں پاکستان چھوڑنے کا حکم دیا'۔
انسانی حقوق کے ادارے کی جاری کردہ رپورٹ میں اقوام متحدہ کے ادارے کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا گیا کہ مہاجرین کے لیے کام کرنے والے ادارے نے پاکستان سے افغانستان لوٹنے والے مہاجرین کی گرانٹ کو دگنا کرکے 400 ڈالر کردیا، جس سے مہاجرین کے انخلاء کی رفتار مزید تیز ہوگئی۔
محقق گیری سمپسن کے مطابق اقوام متحدہ کے ادارے کو پاکستان سے افغان مہاجرین کی زبردستی واپسی کو 'رضاکارانہ واپسی' ظاہر کرنے سے اجتناب کرنا چاہیئے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر یو این ایچ سی آر کو ایسا لگتا ہے کہ واپس لوٹنے والے مہاجرین کو رقم ادا کرکے افغانستان میں ان کے بقا میں مدد فراہم کی جاسکتی ہے تو کم از کم انہیں اس بات کو واضح کرنا چاہیئے کہ وہ ان کی واپسی کو رضاکارانہ نہیں سمجھتے۔
پاکستان میں موجود افغان مہاجرین
ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق، گذشتہ 4 سال کے دوران پاکستان 10 لاکھ سے زائد مہاجرین کی میزبانی کرچکا ہے۔
2016 کےآخری نصف حصے میں ملک بدری کی دھمکیوں اور پولیس کی بدسلوکی کی وجہ سے 15 لاکھ رجسٹرڈ مہاجرین میں سے 3 لاکھ 65 ہزار افراد افغانستان واپس گئے اور اسی دوران 10 لاکھ غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین میں سے 2 لاکھ افغان مہاجرین بھی وطن واپس پہنچے۔
انسانی حقوق کے ادارے نے اس انخلاء کو 'حالیہ دور میں دنیا کی سب سے بڑی غیرقانونی مہاجرین کی واپسی' قرار دیا۔