سفر کہانی: دریائے جہلم کے پار
لاہور سے تھوڑی ہی ڈرائیو پر سیاحت اور سفر سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے کئی مقامات ہیں۔ حالیہ دنوں میں ہی ہفتہ وار چھٹی کے موقع پر دوستوں کے ایک گروپ نے جہلم ندی میں موجود ایک جزیرے پر کیمپنگ کا انتہائی شوق رکھنے والے جوڑوں کے ساتھ کیمپنگ اور ٹیم بلڈنگ کی غرض سے سیر و تفریح کے پروگرام میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔
منصوبہ کچھ یوں تھا کہ پہلے سرگوھا کے قریب واقع ایک تاریخی شہر بھیرہ تک گاڑی میں جانا تھا، جہاں سے بیڑی یا لکڑی کی کشتی پر سوار ہو کر جہلم کو چیرتے ہوئے جزیرے پر پہنچنا تھا اور پھر وہاں پوری رات کیمپنگ کرنی تھی۔ ہم نے مختلف سرگرمیوں میں مصروف ہو کر دن گزارنے اور پھر خشکی کا رخ کر کے اپنے گھر واپس لوٹ آنے کا منصوبہ بنایا۔
ہم نے کراچی سے لاہور کی پرواز پکڑی اور اگلی صبح سویرے ہم جہلم ندی کے بائیں کنارے کے ساتھ ساتھ لاہور موٹر وے پر ڈرائیو کو نکل پڑے۔ اچھی حالت میں موجود موٹروے، ٹول بوتھ، اور دیگر طعام و قیام کی جگہوں کی وجہ سے سفر کافی آرامدہ ثابت ہوا۔
لہلہاتے سر سبز شاداب کھیت، نیلا آسمان اور سرخ اینٹوں سے بنے مکان اور دیگر عمارتیں کسی خوبصورت رنگین پینٹنگ کی منظر کشی کر رہی تھیں۔ افسوس کہ یہ اینٹیں جہاں شہر کو نہایت خوبصورت بناتی ہیں اور اپنے کمال حسن سے گندگی کی پردہ پوشی کرتی ہیں وہاں یہ ان بھٹوں میں تیار ہوتی ہیں جو ماحول میں آلودگی یا اسموگ کا باعث بنتے ہیں اور ان بھٹوں کو اکثر و بیشتر قید میں رکھے گئے مزدور اور یہاں تک کہ چھوٹے بچے بھی چلاتے ہیں۔ لیکن روشن پہلو دیکھیں تو یہ دیکھ کر انتہائی خوشی ہوتی ہے کہ ان میں زیادہ تر عمارتیں فعال اسکولوں کی ہیں۔
یہ خطہ پاکستان میں خوراک فراہم کرنے کے حوالے سے مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ آبپاشی کی نہریں گنے، سرسوں، پالک، مولی، چاول، شلجم اور گندم کے کھیتوں میں بہتی ہیں جن پر سے سورج کی کرنیں ٹکراتی ہیں۔ کرسمس ٹریز کا تصور دینے والے نارنگیوں کے درخت موٹر وے کے ساتھ ساتھ کھڑے نظر آئے اور وہاں شہد کے فارمز کی بہتات بھی تھی۔ پانی کی نہریں، زرخیز زمین اور کھیت کھلیان کو دیکھ کر نہ جانے کتنے پرندے نیچے اتر آتے ہیں۔