پاکستان

طیبہ تشدد کیس: جج، اہلیہ کی درخواست ضمانت منظور

ملزمان کی درخواست ضمانت طیبہ کے والد کی جانب سے بیان حلفی جمع کرانے کے بعد منظور کی گئی۔

اسلام آباد: کمسن گھریلو ملازمہ پر تشدد کیس میں طیبہ کے والد نے ملزمان کو معاف کرنے کا بیان حلفی جمع کرادیا، جس پر عدالت نے جج راجہ خرم علی اور ان کی اہلیہ کی درخواست ضمانت منظور کرلی۔

اسلام آباد کے ایڈیشنل سیشن جج راجہ آصف محمود نے طیبہ تشدد کیس کی سماعت کی۔

عدالت کے استفسار پر طیبہ کے والد اعظم نے بتایا کہ انہوں نے ایڈیشنل سیشن جج اور ان کی اہلیہ کو معاف کردیا ہے، دونوں کے خلاف مقدمہ بے بنیاد ہے، جبکہ اگر ملزمان کو ضمانت دے دی جائے تو انہیں کوئی اعتراض نہیں۔

ایڈیشنل سیشن جج راجہ آصف نے ریمارکس دیئے کہ آپ پہلے بھی اس عدالت میں معافی کا بیان دے کر سپریم کورٹ میں مکر گئے تھے۔

اعظم نے کہا کہ وہ سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران دباؤ میں آگیا تھا، تاہم اب وہ پورے ہوش و حواس میں راجہ خرم اور ان کی اہلیہ کو معاف کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: طیبہ تشدد کیس پڑوسیوں کی 'سازش' ہے، اہلیہ جج

طیبہ کے والد اعظم کی جانب سے عدالت میں بیان حلفی جمع کرانے کے بعد عدالت نے جج راجہ خرم علی اور ان کی اہلیہ ماہین ظفر کی 30، 30 ہزار روپے کے مچلکوں کے عوض ضمانت منظور کرلی۔

طیبہ تشدد کیس — کب کیا ہوا؟

کمسن ملازمہ طیبہ پر تشدد کا معاملہ دسمبر 2016 کے آخر میں اُس وقت منظرعام پر آیا تھا، جب تشدد زدہ بچی کی تصاویر سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگی تھیں۔

ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج راجا خرم علی خان کے گھر سے بچی کی برآمدگی کے بعد پولیس نے انھیں اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔

بعد ازاں 3 جنوری کو مبینہ تشدد کا نشانہ بننے والی کمسن ملازمہ کے والد ہونے کے دعویدار شخص نے جج اور ان کی اہلیہ کو 'معاف' کردیا تھا۔

مزید پڑھیں: طیبہ پر تشدد کرکے جرم کا ارتکاب کیا گیا، چیف جسٹس

بچی کے والدین کی جانب سے راضی نامے کی رپورٹس سامنے آنے کے بعد سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے کم سن ملازمہ پر مبینہ تشدد کے معاملے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے بچی اور اس کے والدین کو عدالت پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔

اس کے بعد سے پولیس طیبہ کی تلاش میں سرگرداں تھی جبکہ اس نے طیبہ کی بازیابی کے لیے مختلف شہروں میں چھاپے مارے تھے، تاہم وہ اسلام آباد سے ہی بازیاب ہوئی، جسے بعدازاں پاکستان سوئیٹ ہوم کی تحویل میں دے دیا گیا تھا۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے کم سن ملازمہ پر ہونے والے تشدد پر ازخود نوٹس کیس کو مزید ٹرائل کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ بھیج دیا تھا۔

دوسری جانب تشدد کے تمام الزامات کی تردید کرتے ہوئے سیشن جج اور ان کی اہلیہ کا کہنا تھا کہ چند پڑوسیوں نے مبینہ طور پر ان کے خلاف 'سازش' کی ہے، ملزم جوڑے کے مطابق انہوں نے والدین کی غربت کو دیکھتے ہوئے بچی کو انسانی ہمدردی کی بناء پر اپنے گھر میں رکھا تھا۔