ہنگری کے گاؤں میں حجاب اور اذان پر پابندی

سربیا کی سرحد کے قریب واقع اس گاؤں میں صرف دو مسلمان ہیں پھر بھی یہاں کے میئر مسلمانوں سے خوفزدہ ہیں۔

یورپی ملک ہنگری کے ایک گاؤں میں مسلم لباس اور اذان پر پابندی عائد کردی گئی جس کا مقصد یورپ کے ان عیسائیوں کو اس گاؤں میں آکر آباد ہونے کی ترغیب دینا ہے جنہیں اپنے ملکوں میں کثیر الثقافتی ماحول پر اعتراض ہے۔

سربیا کی سرحد سے ملحقہ گاؤں ایسوتھالوم کے میئر لاسلو توروزکائی نے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو انٹرویو میں بتایا کہ 'ہم اپنے گاؤں میں لوگوں کو بھرنے کے لیے مغربی یورپ کے لوگوں کو ترجیح دیں گے جو کثیر الثقافتی معاشرے میں رہنا نہیں چاہتے'۔

انہوں نے کہا کہ 'ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے گاؤں میں مسلمان آئیں'۔

انہوں نے کہا کہ 'یہ بہت ضروری ہے کہ ہم اپنے گاؤں کی روایات کا تحفظ کریں، اگر بڑی تعداد میں مسلمان یہاں آجائیں گے تو وہ یہاں کے عیسائی آبادی کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہوسکیں گے'۔

میئر نے کہا کہ 'میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ یورپ میں یورپی ہوں، ایشیا میں ایشین ہوں اور افریقا میں افریقی ہوں'۔

واضح رہے کہ گزشتہ برس مہاجرین کے بحران کے عروج پر مذکورہ گاؤں کے ذریعے سربیا سے یومیہ 10 ہزار افراد ہنگری میں داخل ہورہے تھے۔

میئر نے اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بعض قوانین متعارف کرادیے تھے جن کی قانونی حیثیت پر سوالیہ نشان ہے۔

یہ بھی پڑھیں: فرانس کے بعد آسٹریا میں بھی 'نقاب پر پابندی'

مقامی قانون کے مطابق اب گاؤں میں مسلم لباس جیسے حجاب، برقعہ وغیرہ پہننے پر پابندی ہے جبکہ اذان بھی دینے کی اجازت نہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ گاؤں میں فی الوقت صرف دو مسلمان مقیم ہیں پھر بھی میئر کو مسلمانوں سے اتنا خوف ہے کہ انہوں نے مسجد کی تعمیر پر پابندی کے حوالے سے بھی قوانین متعارف کرادیے ہیں۔

کئی قانون دانوں کا خیال ہے کہ یہ قوانین ہنگری کے آئین سے متصادم ہے اور اس حوالے سے حکومت فروری کے وسط تک کوئی فیصلہ کرے گی۔

گاؤں میں موجود دو مسلمانوں نے بی بی سی سے بات کرنے سے انکار کیا کیوں کہ انہیں خدشہ ہے کہ انٹرویو دینے سے مقامی آبادی کی توجہ ان کی جانب مبذول ہوگی۔

واضح رہے کہ گزشتہ دنوں یورپی ملک آسٹریا کے حکومتی اتحاد نے بھی اسکولوں، عدالتوں اور دیگر عوامی مقامات میں 'نقاب' اور 'برقعہ' پر پابندی پر غور شروع کیا تھا۔

فرانس اور بلجیم نے 2011 میں برقعہ پر پابندی عائد کی تھی جب کہ نیڈرلینڈ کی پارلیمنٹ میں بھی اس پر بحث جاری ہے۔

گزشتہ ماہ جرمن چانسلر انجیلا میرکل نے بھی کہا تھا کہ نقاب پر جس حد تک ممکن ہو پابندی ہونی چاہیے جبکہ برطانیہ میں اس طرح کی کوئی پابندی عائد نہیں ہے۔