27 سال سے بچھڑے کشمیری خاندان کی ملاقات کی داستان
"محمد اشرف ان بدنصیب کشمیریوں میں سےایک ہے۔ جس کا خاندان 1990 میں مقبوضہ کشمیر میں شروع ہونے والے بھارتی فوج کی بربریت کی وجہ سے آزاد کشمیر ہجرت کر آیا تھا۔
1990 میں بھارتی سرکار کے نافذ کردہ گورنر راج کے بعد پوری وادئ کشمیر میں مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا۔ جس کے خلاف بھارتی فوج کی کاروائیوں میں 100 سے زائد کشمیری ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔ اسی کشیدگی کے پیش نظر سینکڑوں کشمیری خاندانوں نے آزاد کشمیر ہجرت کی، جن میں محمد اشرف کا خاندان بھی شامل تھا۔
بدقسمت محمد اشرف ہندوستانی سرکار کا ملازم ہونے کی وجہ سے سری نگر میں تعینات تھا۔ جس وجہ سے وہ اپنے خاندان کے ہمراہ آزاد کشمیر ہجرت نہ کرسکا۔
آزاد کشمیر ہجرت کر کے آنے والے محمد اشرف کے خاندان میں اس کے والدین، بیوی، 3 بیٹیاں اور 12 سالہ اکلوتا بیٹا محمد اصغر شامل تھا۔
محمد اشرف کی طرف سے 27 برسوں تک ہندوستانی سرکار سے متعدد بار پاسپورٹ کے لیے درخواست کی گئی۔ لیکن محمد اشرف کے خاندان کی آزاد کشمیر ہجرت کر جانے کی وجہ سے محمد اشرف کے خلاف "بارڈر پار پرچہ" درج کرلیا گیا تھا۔ جس کی وجہ سے اسے پاسپورٹ جاری نہیں کیا گیا۔ تاہم 2016 کے آخر میں 80 سالہ محمد اشرف کی قسمت جاگی اور محمد اشرف کو ہندوستانی سرکار کی طرف سے پاسپورٹ جاری کرتے ہوئے پاکستان جانے کی اجازت مل گئی۔
"محمد اصغر نے 15 سال پہلے سن 2000 میں دریائے نیلم کے کنارے اپنے والد کو ہاتھ ہلاتے ہوئے دیکھا تھا"
اس طرح 27 برسوں بعد محمد اشرف کپواڑہ سے دہلی، دہلی سے امرتسر اور پھر واہگہ بارڈر پار کرتے ہوئے براستہ لاہور مظفرآباد پہنچا۔ جہاں اس کا خاندان چہیلہ بانڈی میں قائم مہاجر کیمپ میں رہائش پزیر ہے۔ جو کہ آزاد کشمیر حکومت کی طرف سے 1990 میں ہجرت کرکے آئے کشمیریوں کے لیے قائم کیا گیا تھا۔