نقطہ نظر

کیا پاکستان کا مسئلہ واقعی 'غربت' ہے؟

عوام کی بھلائی کا کوئی بھی منصوبہ بنانے سے قبل ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ مسئلہ غربت ہے یا عدم برابری؟
لکھاری ماہرِ سیاسی معاشیات ہیں.

موجودہ دور میں سب سے اہم سماجی، معاشی اور سیاسی مسئلہ، دونوں مقامی اور عالمی سطح پر، محض غربت نہیں بلکہ عدم برابری ہونا چاہیے۔ غربت کا حل کافی حد تک آسان رہا ہے جبکہ عدم برابری کو کم کرنا نہایت ہی پیچیدہ بلکہ قریب قریب ناممکن سا عمل ہے۔

غربت کو زیادہ تر لوگ، خاص طور پر مالی طور پر بہتر حالت رکھنے والے اور مراعات یافتہ طبقہ، غربت کو کچھ معاشی اور سماجی اثرات کے ساتھ ایک اخلاقی مسئلے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ دوسری جانب عدم برابری واضح طور پر ایک سیاسی مسئلہ ہے، جس کے لیے بڑی سطح پر فہم اور اقدام مطلوب ہے۔

گزشتہ چوتھائی صدی کے دوران دنیا میں رہنے والے 7 ارب لوگوں کے لیے سب سے زیادہ غیر معمولی پیش رفتوں اور کامیابیوں میں ایک عالمی سطح پر غربت میں بڑی سطح پر کمی واقع ہونا ہے۔ جہاں 1990 میں عالمی آبادی کا 37.1 فیصد حصہ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہا تھا وہاں 2012 میں یہ تعداد 18.8 فیصد تھی۔

اس عرصے کے دوران سب سے زیادہ حیران کن غربت میں گراوٹ جنوبی ایشاء میں دیکھنے کو ملی، جہاں 1991 میں غربت کا تناسب 50.6 فیصد تھا وہاں یہ تعداد صرف 12.7 فیصد تک رہ گئی۔ یہاں تک کہ پاکستان کی صورتحال پر جائزہ لیں تو شواہد دکھاتے ہیں کہ گزشتہ دو دہائیوں یا اس سے زائد کے عرصے کے دوران غربت کی سطح میں بے پناہ گراوٹ ہوئی ہے۔

ورلڈ بینک کے شواہد کافی حد تک واضح کرتے ہیں کہ، "پاکستان میں 2001 سے کافی تیزی کے ساتھ اور مسلسل طور پر غربت میں گرواٹ واقع ہوئی ہے، غربت کی شرح 35 فیصد قریب سے گر کر 2014 تک 10 فیصد تک آ پہنچی ہے۔" پاکستان اور عالمی دنیا میں غربت میں کمی واقع ہونے کی کئی وجوہات ہیں، جن میں ٹارگیٹڈ کیش منتقلی اور اس سے جڑے پروگراموں کی صورت میں سماجی اور معاشی مداخلت، آمدن میں اضافہ، اور سماجی اور انفرا اسٹریکچر اور ترقی شامل ہیں۔ پاکستان کی جہاں تک بات ہے تو جہاں کئی عناصر نے غربت کم کرنے میں غیر معمولی کردار ادا کیا ہے وہاں رقم منتقلیوں ایک سب سے اہم وجہ رہی ہے۔

علاوہ ازیں، ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان میں 18 فیصد غریب ترین گھرانوں کے پاس موٹرسائیکل ہیں، یہ شرح 15 سال قبل صرف 2 فیصد ہی تھی؛ غریب ترین آبادی میں جن کے پاس کسی قسم کے ٹوائلٹ نہیں تھے ان کی شرح نصف سے آپہنچی ہے — جو پہلے 60 فیصد تھی اب کم ہو کر 30 فیصد رہ گئی ہے؛ یہاں تک کہ پاکستان میں کم مالی حیثیت رکھنے والے گھرانوں میں مختلف خوراک کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے، اور ان میں ڈیری، گوشت، بھل اور سبزیوں کا استعمال بڑی حد تک بڑھا ہے۔ اسی طرح دیہی غذا میں شہری خوراک جیسی پسندیدگی اور ذائقے جیسی یکسانیت بھی آئی ہے، جیسا کہ اکثر ترقی کے ساتھ دیکھنے کو ملتا ہے۔

کئی پاکستانیوں، خاص طور پر مراعات یافتہ طبقے کے لیے ان شواہد کو قبول کرنا مشکل ہے کیونکہ انہیں تو غربت ہر جگہ نظر آتی ہے۔ وہ دراصل جو دیکھتے ہیں وہ عدم برابری ہے، جو ان کے نزدیک عام فہم، عام مروج خیالی میں اسے غربت کا نام دیتے ہیں۔

غربت کو اکیڈمک اور حکومت کے اعتبار سے جس انداز میں غربت کو بیان اور اس کی پیمائش کی جاتی ہے، اس کے مطابق غربت کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کے پاس ایک خاص نوعیت کی مصنوعات، جس میں زیادہ تر خوراک اور دیگر سامان شامل ہے، کو خرید کرنے لائق آمدن نہ رکھتے ہوں۔

اکیڈمک شواہد پاکستان میں غربت کی انتہائی کمی واقع ہونے کے بارے میں نشاندہی کرتے ہیں کہ وہ لوگ جن میں زیادہ تر غریب تھے وہ غربت سے نکل چکے ہیں اور اب وہ زیادہ خوراک اور تعلیم، صحت اور بہتر مکان جیسی دیگر سہولیات کی اخراجات برداشت کر سکتے ہیں۔ دوسری جانب پاکستان میں غربت میں کمی واقع ہونے کے باوجود عدم برابری میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔

پاکستان میں جہاں غربت پر سینکڑوں تحقیقیں ہو چکی ہیں اس مقابلے میں عدم برابری پر بہت ہی محدود تحقیقیں ہوئی ہیں۔ اس کے باوجود دانشوروں کی تحقیق اور حتیٰ کہ سرکاری کے اعداد و شمار دکھاتے ہیں کہ گزشتہ تین دہائیوں کے دوران آمد کی تقسیم واضح طور پر عدم مساوی کا شکار رہی ہے۔

دیگر لفظوں میں کہیں تو امیر اور بھی امیر ہو گئے ہیں اور ان کے اور باقی آبادی کے درمیان خلا میں اضافہ ہوا ہے۔ حالانکہ گزشتہ تین دہائیوں کے دوران "متوسط طبقے" میں بڑی حد تک اضافہ ہوا ہے، مگر آبادی میں موجود 60 فیصد اور 40 فیصد امرا کے درمیان آمدن اور اثاثوں کی تفریقات میں تیز رفتاری کے ساتھ اضافہ ہوا ہے۔ ایک بار پھر واضح کر دوں کہ ان 60 فیصد غریبوں میں سے صرف چند ایک ایسے ہیں جنہیں حقیقی طور پر غریب افراد کے طور پر بیان کیا جا سکتا ہے۔

اگرچہ اب بھی چند ایسے بھی لوگ موجود ہیں جو پاکستان میں جاگیرداری کی خام خیالی میں یقین رکھتے ہیں، مگر اعداد و شمار دکھاتے ہیں کہ دیہی علاقوں کے مقابلے میں شہری علاقوں میں عدم برابری کی شرح سے بہت زیادہ ہے۔

شہری علاقوں میں انتہائی امیر اور انہتائی غریب گھرانوں کی یہی وجہ ہے، جہاں آمدنیوں اور دہاڑیوں میں بڑی حد تک تفریقات نظر آتی ہیں۔ دیہی علاقوں میں زیادہ تر زمیندار یا تو چھوٹے ہیں یا بہت ہی چھوٹے ہیں، اس طرح عدم برابری میں شدت بھی کم ہے۔

درحقیقت دیہی عدم برابری میں حقیقی طور پر کمی واقع ہوئی ہے، جبکہ شہری عدم برابری میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ پاکستان اب شہری، غالباً پوری طرح سے، آبادی پر مشتمل ہے اور چنانچہ ایسے اعداد و شمار میں آگے آگے ہے۔

بات صرف آمدن کی عدم برابری تک محدود نہیں جو کہ بد سے بدتر ہوئی ہے بلکہ پاکستان میں بڑی حد تک صوبائی خودمختیاری اور وسائل دینے جیسے اقدامات کے باوجود علاقائی عدم برابری بھی بد سے بدتر ہوئی ہے۔ جہاں شہری پنجاب اور خیبر پختونخوا دیہی سندھ، جنوبی پنجاب اور بلوچستان سے کہیں زیادہ خوشحال ہیں، وہاں پنجاب اور سندھ میں عدم مساوات کی سطح خیبر پختونخواہ اور بلوچستان سے زیادہ ہے.

گذشتہ تین دہائیوں کی واحد خوش آئند بات یہ ہے کہ پاکستان میں صنفی عدم توازن کافی حد تک کم ہوا ہے، بھلے ہی یہ اب بھی ختم نہیں ہوا ہے. عام تصور ہے کہ لڑکیاں اسکول نہیں جاتیں، مگر گذشتہ دہائی کے ڈیٹا سے معلوم ہوتا ہے کہ لڑکوں سے زیادہ لڑکیاں اسکول جاتی ہیں. لڑکیاں تیزی سے اسکول میں لڑکوں کی تعداد کا مقابلہ کر رہی ہیں.

اس کے علاوہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ سال 15-2014 میں پاکستان کی یونیورسٹیوں میں 52 فیصد لڑکیاں جبکہ 48 فیصد لڑکے زیرِ تعلیم تھے. غربت میں کمی کے لیے صرف رقوم کی فراہمی درکار ہے. دوسری جانب بڑھتی ہوئی عدم مساوات کو ختم کرنے کے لیے طاقت کا ایک طبقے کی جانب سے استحصال ختم کرنا ہوگا، جو کہ سرمایہ دارانہ نظام کا خاصہ ہے.

امیروں کے امیر تر ہونے، مڈل کلاس کے وسیع تر ہونے سے اور سیاسی کنٹرول پیسے والوں کے ہاتھوں میں ہونے سے پاکستان میں عدم مساوات صرف بڑھے گی ہی.

انگلش میں پڑھیں.

ایس اکبر زیدی
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔