نقطہ نظر

صوبوں کے بجٹ - 2

چاروں صوبوں کے بجٹ میں مشترک ہے 'بجٹ خسارہ' جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صوبائی حکومتوں کی ترجیح ترقیاتی کام ہیں


یہ اس بلاگ کا دوسرا حصّہ ہے جس میں خیبر پختونخوا  اور بلوچستان کے صوبائی بجٹوں کا تجزیہ کیا گیا ہے، پہلا حصّہ پڑھنے کے لئے کلک کریں 


خیبرپختونخواہ

تحریک انصاف کی اتحادی حکومت کے وزیر خزانہ نے 14 - 2013 کا بجٹ پیش کیا، جن کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے- بجٹ میں سالانہ ترقیاتی پروگرام کیلئے 118 بلین روپے کی رقم مختص کی گئی ہے-

بجٹ میں وعدہ کیا گیا ہے کہ ترقی کی شرح کو تیز کیا جائیگا، غربت میں کمی کے اقدامات کئے جائینگے اور ایک ایسے معاشرے کے قیام کی کوشش کی جائیگی جہاں صحت اور تعلیم کے شعبے ترقی کریں اور رواداری اور برداشت کو فروغ حاصل ہو-

وزیر خزانہ کے بیان کے مطابق اگلے تین برسوں میں غربت کی شرح میں نصف کی کمی واقع ہو گی- اگلے تین برسوں میں معیشت کی ترقی کی رفتار کو 7 فی صد تک پہنچا دیا جائیگا- ترقیاتی منصوبوں کے مصارف اور وسائل میں 76 . 10 بلین روپے کا فرق موجود ہے- اس بات کی وضاحت نہیں کی گئی ہے کہ اس کمی کو کس طرح پورا کیا جائیگا-

بجٹ کے مطابق، عوامی بہبود پر 48 فی صد، ترقیاتی منصوبوں پر 34 فی صد اور غیر ترقیاتی امور پر 18 فیصد رقم صرف کی جائیگی- صحت اور تعلیم پر بجٹ کا 32 فیصد حصّہ صرف کیا جائیگا جبکہ صوبہ پنجاب میں اس مد میں صرف سات فی صد کی رقم مختص کی گئی ہے-

کے پی کی حکومت نے توانائی کے بحران کو حل کرنے کیلئے ایک ہنگامی منصوبہ ترتیب دیا ہے- اس منصوبے کے تحت، خیبرپختونخوا کی حکومت نے توانائی کے بحران کو حل کرنے کیلئے، بینک آف خیبر کے تعاون سے چھوٹے ہائیڈرو پروجکٹ تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا ہے- اسکے علاوہ ہوا سے اور بایوماس سے چلنے والے بجلی گھر بھی تعمیر کئے جائینگے-

ٹرانسمشن لائینوں اور تقسیم کے نظام کو بہتر بنایا جائیگا- سڑکوں کی روشنی کے لئے شمسی توانائی استعمال کی جائیگی اور تھرمل بجلی گھر بھی تعمیر کئے جائینگے- اس وقت ایشیائی ترقیاتی بینک کی مدد سے بھی بجلی گھر زیر تعمیر ہیں- ایک اندازے کے مطابق کے پی میں بجلی کی طلب 2700 میگا واٹ ہے جبکہ اسکی رسد ایک ہزار آٹھ سو ستر میگاواٹ ہے-

ایک جرمن ماہر کے اندازے کے مطابق اگر صرف دریائے چترال پر تین بند تعمیر کئے جائیں تو چوالیس ہزار میگاواٹ بجلی پیدا ہوسکتی ہے جبکہ صوبے میں پچاس ہزارمیگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے امکانات موجود ہیں-

جہاں تک تعلیم کاتعلق ہے تو کے پی ایسا صوبہ ہے کہ جہاں اسکول دہشت گردوں کی کاروائیوں کا نشانہ بن رہے ہیں- خاص طور پر لڑکیوں کے اسکولوں کو بم کے دھماکوں سے اڑا دیا جاتا ہے- اگرچہ کے پی کی حکومت نے بجٹ میں 32 فی صد حصہ تعلیم کے لئےمختص کیا ہے لیکن صرف بجٹ کی فراہمی کافی نہیں جب تک کہ وہاں کی سول سوسائٹی کو انتظامی معاملات میں شامل نہ کیا جائے-

معلوم ہوتا ہے کہ حکومت نے اس ضرورت کو محسوس کر لیا ہے اور اب یہاں کا شعبہ تعلیم، پرائمری اور ثانوی تعلیم کی سطح پر تعلیمی معاملات میں والدین کو شامل کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے- اب والدین اوراساتذہ کی تنظیموں کو (پی ٹی سی ایس) صوبائی سطح تک لیجانے کا منصوبہ ہے تا کہ وہ پالیسی سازی میں بھی حصہ لے سکیں-

صوبے کے تعلیمی نیٹ ورک کو یونین کونسل، سرکل، تحصیل، ضلعی اور صوبائی سطح تک پھیلایا جائیگا- ان کےاراکین کے انتخابات، باضابطہ رائے دہی کے ذریعہ ہونگے اور وہ تین سال کیلئے منتخب ہونگے- ایک رپورٹ کے مطابق کینیڈا کی ایک تنظیم سوشل سروسز ڈیلیوری، اس مقصد کیلئے فنڈ فراہم کریگی- امید کی جاتی ہے کہ تعلیم میں والدین کے تعاون سے سرکاری اسکولوں میں معیار تعلیم کو بلند کرنے میں مدد ملیگی-

بلوچستان

صوبہ بلوچستان کا بجٹ، وہاں کے وزیراعلی عبدالمالک بلوچ نے پیش کیا- تاجر برادری نے بجٹ کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں عوامی بہبود کے ساتھ ساتھ انفرااسٹرکچر کو ترقی دینے کی جانب مساوی توجہ دی گئی ہے- ان شعبوں کی ترقی کی جانب خصوصی توجہ دی گئی ہے جن کے ذریعہ ملازمت کے مواقع پیدا ہونگے اورنوجوانوں کو روزگار ملیگا-

بلوچستان میں گلہ بانی، زراعت، ماہی گیری اور کانکنی کے شعبوں کے ذریعہ ریوینو میں نمایاں اضافہ ہوسکتا ہے اور پہلی بار کسی صوبائی حکومت نے ان شعبوں کی اہمیت کو تسلیم کیا ہے- اس بجٹ میں سرمایہ کاری اور صوبائی ٹیکس کے نیٹ ورک کو پھیلانے کی جانب خصوصی توجہ دی گئی ہے جس کی اس سے پہلے مثال نہیں ملتی-

حکومت نے 44 بلین روپے کی سرمایہ کاری کا منصوبہ پیش کیا ہے جس کا مطلب ہے گزشتہ سال کے مقابلے میں 22 فی صد کا اضافہ- تعلیم کے شعبے کیلئے بجٹ کا 32 فی صد حصّہ مختص کیا گیا ہے جبکہ سابقہ بجٹ میں اس کا تناسب صرف 4 فی صد تھا-

صحت کے شعبے کیلئے بھی 2 . 9 فی صد کی رقم مختص کی گئی ہے جبکہ سابقہ دور حکومت میں اس کا تناسب صرف 63 . 2 فیصد تھا- البتہ سڑکوں کی تعمیر کے بجٹ میں کمی کر دی گئی ہے- سابقہ حکومت نے اس پر 36 فیصد کی رقم صرف کی تھی جبکہ موجودہ حکومت نے 6 .18 فی صد رقم مختص کی ہے-

ایک اور اہم تبدیلی یہ کی گئی ہے کہ سابقہ روایت کے برعکس صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کو ترقیاتی فنڈ دینے کا سلسلہ ختم کردیا گیا ہے، جسے شاید وہ سیاستدان پسند نہ کریں جو اپنے اپنے حلقوں میں اپنے اثرورسوخ کو بڑھانے کیلئے ان فنڈوں کا استعمال کرتے ہیں جبکہ حقیقی ترقی کی ضروریات کو نظرانداز کردیا جاتا ہے- نئی حکومت کو جو متوسط طبقے کی نمائندہ ہے ایک قبائلی معاشرے میں مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے-

وزیر اعلیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اگلے این ایف سی ایوارڈ کے تحت، مرکزی اور صوبائی حکومت کے درمیان ٹیکسوں کی تقسیم کو 80 : 20 پر لانے کی پوری کوشش کرینگے جبکہ سابقہ دور حکومت میں یہ تناسب 5 .57 :5 .42 کے درمیان تھا-

موجودہ حکومت نے اہم اقدامات کا منصوبہ بنایا ہے جنکے ذریعہ صوبائی ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی رقم پہلے کے مقا بلے میں دگنی ہو جائیگی یعنی 60 بلین روپے- اس مقصد کیلئے سروسز سیلز ٹیکس، روڈ ٹیکس اور املاک کے ٹیکس کی شرح میں اضافہ کیا گیا ہے- ایران اور افغانستان کے ساتھ سرحدوں پر مشترکہ منڈیاں قائم کرنے کا بھی منصوبہ ہے-

ساحلی علاقوں کو منڈیوں سے ملانے کیلئے سڑکیں تعمیر کی جائینگی، خصوصی معاشی زون اور انڈسٹریل اسٹیٹ قائم کئے جائینگے- معدنی وسائل کا بہتر سے بہتراستعمال کیا جائیگا-

بلوچستان میں امن عامہ کی صورت حال کے پیش نظر، زراعت اور مویشیوں کے شعبے میں قلیل مدت میں کچھ امید افزا نتائج مل سکتے ہیں- ماہی گیری کے شعبے میں کشتیوں کی تعمیر اور مرمت کیلئے 500 ملین روپے کی رقم مختص کی گئی ہے- کپاس کی کاشت کو ترقی دینے کیلئے 50 ملین روپیہ اور بیجوں کی کوالٹی کو بہتر بنانے کیلئے 50 ملین روپے کی رقم صرف کی جائیگی-

پسنی کے مچھلی کے پروسیسنگ پلانٹ کوترقی دینے کیلئے 200 ملین روپے کی رقم فراہم کی گئی ہے جبکہ 500 ملین روپے کا تخمینہ لگایا گیا تھا- کوئٹہ کے زرعی کالج کی توسیع کا منصوبہ ہے جسے یونیورسٹی کا درجہ دیا جائیگا- لسبیلہ زرعی یونیورسٹی سے زراعت کے علاوہ ماہی گیری کے شعبے کو ترقی کے مواقع حاصل ہونگے- ریگستانی رقبے کے پھیلاؤ کو روکنے اور بلوچستان کو سرسبزو شاداب بنانے کی طرف خصوصی توجہ دی جائیگی-

مختصراً یہ کہا جاسکتا ہے کہ چاروں صوبوں نے اپنے اپنے صوبوں کے حالات کے لحاظ سے منصوبے تیار کئے ہیں- پنجاب میں شہباز شریف کی حکومت اپنی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے ترقیاتی منصوبوں پر کام کرنے کا ارادہ رکھتی ہے صوبہ سندھ میں جوش و خروش نظر نہیں آتا-

دیکھنا ہے کہ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی، چیلنجز کا مقابلہ کس طرح کرتی ہے کیونکہ اسی پر اس کے انتخابی وعدوں کی جانچ پڑتال ہوگی- جہاں تک صوبہ بلوچستان کا تعلق ہے تو یہاں کے حالات، دیگر صوبوں کے مقابلے میں زیادہ پریشان کن ہیں- دہشت گردی اور علیحدگی پسندوں سے نبرد آزما ہونا اور ساتھ ساتھ ترقیاتی امور پر توجہ دینا اس صوبے کیلئے سب سے بڑا چیلنج ہے-

سیدہ صالحہ

لکھاری فری لانس جرنلسٹ ہیں، اور سماجی مسائل اور ادب پر لکھنا پسند کرتی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔