پاکستان

’اسحٰق ڈار کا اعترافی بیان دباؤ کے ذریعے لیا گیا‘

اسحٰق ڈار چونکہ سیاسی کارکن نہیں تھے اس لیے انہیں بیان دینے کے لیے مجبور کرنا زیادہ مشکل نہیں تھا، خواجہ آصف

وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کا مشرف کے دور میں قومی احتساب بیورو (نیب) کو دیا گیا اعترافی بیان شدید دباؤ کے ذریعے لیا گیا، جبکہ اسحٰق ڈار پر تشدد کے وہ خود عینی شاہد ہیں۔

نجی چینل ’جیو نیوز‘ کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ ’بطور سیاسی کارکن میرے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ میں اکتوبر 1999 میں پرویز مشرف کے جمہوریت پر شب خون مارنے کے بعد اپنے اوپر آنے والی آزمائشوں اور قید و بند کے دوران کے حالات بیان کروں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’لیکن میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اسحٰق ڈار کو فروری 2000 تک ان کے اپنے گھر میں ہی قید رکھا گیا جس دوران ان سے کئی بار تفتیش کی گئی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’11 فروری 2000 کو ہمیں چھانبا ہاؤس اور پھر اٹک قلعہ منتقل کیا گیا۔‘

اسحٰق ڈار کا منی لانڈرنگ کے حوالے سے اعترافی بیان 25 اپریل، 2000 کو مجسٹریٹ کو جمع کرایا گیا تھا۔

وزیر خزانہ پر لگائے گئے الزامات میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ انہوں نے 14 اعشاریہ 86 ملین ڈالر منی لانڈرنگ کرنے اور نواز شریف کے بھائی کے لیے سکندر مسعود قاضی اور طلعت مسعود قاضی کے ناموں سے دو بینک اکاؤنٹس کھلوانے کا اعتراف کیا۔

خواجہ آصف نے دعویٰ کیا کہ قید و بند اور تفتیش کے دوران اتفاق فاؤنڈری کے کئی ملازمین کو بھی حراستی مراکز میں ان کے ہمراہ رکھا گیا۔

انہوں نے کہا کہ ’ان ملازمین کو بھی ہمارے ساتھ تشدد کا نشانہ بنایا گیا جن کی چیخوں کی آوازیں ہمیں رات دیر تک سنائی دیتی تھیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ملازمین کو جب اتفاق فاؤنڈری کے کاروبار کی معلومات افشا کرنے کے لیے تشدد کا نشانہ بنایا گیا تو انہوں نے تمام اسحٰق ڈار پر ڈال دیا، جس کے بعد تفتیش کاروں نے وزیر خزانہ کو مزید تشدد کا نشانہ بنایا۔‘

وزیر دفاع نے کہا کہ ’میری 8 یا 9 فروری 2000 کی صبح جب اسحٰق ڈار سے ملاقات ہوئی تو ان کا 30 پاؤنڈز سے زائد وزن کم ہوچکا تھا۔‘

انہوں نے کہا کہ چونکہ اسحٰق ڈار سیاسی کارکن نہیں بلکہ ایک پیشہ ور انسان تھے اس لیے انہیں بیان دینے کے لیے مجبور کرنا زیادہ مشکل نہیں تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ اسحٰق ڈار کو 23 ماہ تک قید رکھا گیا اور بعد میں ثابت ہوا کہ ان سے دباؤ کے ذریعے بیان لیا گیا تھا۔

خواجہ آصف نے کہا کہ ’مجھے ساڑھے 4 فٹ کے سیل میں قید تنہائی میں رکھا گیا تھا اور اعترافی بیانات ان ہی حالات میں لیے گئے، ہم پر ہر وقت بندوق تانی رکھی جاتی تھی جبکہ اسحٰق ڈار بھی ان میں شامل تھے جنہوں نے بے انتہا نفسیاتی تشدد جھیلا۔‘

اسحاق ڈار کا اعترافی بیان

قومی احتساب بیورو (نیب) نے پاناما کیس کی سماعت کرنے والے سپریم کورٹ کے 5 رکنی ججز کے بینچ کو حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس کے حوالے سے اسحاق ڈار کے اعترافی بیان کی تفصیلات جمع کرادیں۔

ڈان کو حاصل ہونے والی مذکورہ رپورٹ کی کاپی کے مطابق پرویز مشرف کی جانب سے 1999 میں مرشل لاء لگانے کے کچھ ماہ بعد اس وقت کے وزیراعظم کے قریبی ساتھی کو مشکلات اور سختیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

حدیبیہ پیپر ملز لمیٹڈ کیس کے حوالے سے 4 اپریل 2000 کو جمع کرائے گئے اپنے اعترافی بیان میں اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ ان کے مقصود احمد قاضی سے 1970 سے بہت اچھے تعلقات قائم تھے اور 70 کی دہائی کے اوائل میں اپنے لندن کے قیام کے دوران وہ الفورڈ میں 1970 سے 1972 کے درمیان مقصود احمد قاضی کے اہل خانہ کے ساتھ رہائش پذیر تھے۔

نیب میں جمع کرائے جانے والے اپنے اعترافی بیان میں اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ 'مقصود احمد قاضی کا تعلق درمیانے (یا مڈل کلاس) طبقے سے تھا اور وہ مجھ سے اپنے خاندانی فرد کی طرح برتاؤ کیا کرتے تھے۔

اسحاق ڈار کے اعترافی بیان کے مطابق 'جہاں تک ان کے 1992 کے مالی حالات کا تعلق ہے، میری اطلاعات کے مطابق اس وقت تک اس خاندان کی مالی حالت پہلے سے بہتر نہیں ہوئی تھی'۔

وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ انھوں نے 1990 میں ایک مضاربہ کمپنی بنائی جس کا نام فسٹ ہجویری مضاربہ کمپنی (ایف ایچ ایم سی) رکھا، جو ایک غیر ببینکاری مالیاتی ادارہ تھا، ان کی کمپنی نے اگلے سال سے 15 کروڑ کے ادا شدہ سرمائے سے کام کا اغاز کردیا۔

اعترافی بیان میں بتایا گیا کہ نواز شریف 1964 سے 1966 تک گورمنٹ کالج لاہور میں ان کے ساتھی طالب علم تھے، تاہم 'اس وقت ہم دونوں کے درمیان کوئی بے تکلفی نہیں تھی'، وہ شریف خاندان کے قریب اس وقت آئے جب انھیں قومی سطح پر تسلیم کیا گیا، خاص طور پر قومی بجٹ کے حوالے سے تجاویز کیلئے۔

دستاویز کے مطابق اسحاق ڈار نے 1990 میں لاہور میں ایک تقریب کے دوران مقصود احمد قاضی کے خاندان کو نواز شریف اور شہباز شریف سے متعارف کرایا تھا۔

انھوں نے کہا کہ '1992 کے اوائل میں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے مجھ سے رابطہ کیا اور میرے مضاربہ کے کاروبار سے اپنے خاندان کے ایک بزنس کیلئے 10 کروڑ روپے کے قریب رقم کی فراہمی کو کہا، اس کے بعد انھوں نے مجھے مقصود احمد قاضی کے اہل خانہ سکندر مقصود قاضی، نصرت گوہر، طلعت مقصود قاضی اور کاشف مقصود قاضی کے پاسپورٹ کی فوٹو کاپیز بھجوائیں'۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ 'نواز شریف نے اپنی جانب سے فراہم کردہ غیر ملکی رقم سے مذکورہ افراد کے نام سے مختلف بینکس میں غیرملکی کرنسی اکاؤنٹ کھولنے اور انھیں آپریٹ کرنے کو کہا'۔

بیان میں انکشاف کیا گیا کہ اسحاق ڈار نے مذکورہ 'بے نامی اکاؤنٹس کھولنے اور انھیں آپریٹ کرنے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تاہم نواز شریف نے انھیں یقین دہانی کرائی کہ مقصود احمد قاضی ان کے نام کے استعمال پر رضامند ہوگئے ہیں اور مزید یہ کہ پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت کی جانب سے اقتصادی اصلاحات کے تحفظ کے ایکٹ 1992 نفاذ کیے جانے کے بعد ہر قسم کے غیر ملکی اکاؤنٹس کو کسی بھی ایجنسی یا سرکاری ادارے کی تحقیقات سے مکمل طور پر استثنا حاصل ہوجائے گی'۔

اسحاق ڈار کا مزید کہنا تھا کہ 'یہ فیصلہ ہوا تھا کہ سکندر مقصود قاضی اور طلعت مقصود قاضی کے نام سے کھلنے والے غیر ملکی اکاؤنٹس کو میں (اسحاق ڈار) جبکہ دیگر بے نامی اکاؤنٹس کو میری کمپنی کے ڈائریکٹر نعیم محمود میری ہدایات کی روشنی میں آپریٹ کریں گے'۔

انھوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ ان چار اکاؤنٹس کے علاوہ 'اس سے قبل میرے ایک قریبی دوست سعید احمد، میری اہلیہ کے بھتیجے موسیٰ غنی اور دیگر کے نام سے بھی متعدد بے نامی اکاؤنٹس کھلوائے گئے تھے'۔

1998 میں مقصود احمد قاضی اسکینڈل منظر عام پر آنے کے کچھ ماہ بعد شہباز شریف نے ایک ملاقات کے دوران شریف خاندان کے تمام اکاؤنٹس کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔