ارکانِ پارلیمنٹ شریف خاندان کے ذاتی وکیل نہ بنیں
آج کل روزانہ صبح سویرے سپریم کورٹ میں حاضریوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ارکان حکومتی ہوں یا تحریک انصاف کے، بڑی باقاعدگی سے سپریم کورٹ میں حاضر ہوتے ہیں۔
اگرچہ یہ کیس شریف خاندان پر ذاتی نوعیت کا ہے اور حکومت کا اس سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں، مگر پھر بھی ان رہنماؤں کی باقاعدگی اور اس کیس کے ساتھ 'کمٹمنٹ' قابل دید ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ عوام نے ان نمائندوں کو ووٹ پارلیمنٹ میں بیٹھنے کے لیے نہیں بلکہ عدالتی پیشیاں بھگتانے کے لیے دیے ہیں اور ان کے یہ عہدے بھی کسی خاندانی کیس کے دفاع کے لیے ہیں، کیوں کہ قومی اسمبلی میں تو حاضری اتنی باقاعدگی سے نظر نہیں آتی جتنی سپریم کورٹ میں نظر آرہی ہے۔
جتنی حاضریاں ارکان پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ میں پچھلے بیس دن میں دی ہیں، اگر ریکارڈ نکال کر دیکھا جائے تو اتنی حاضریاں قومی اسمبلی میں شاید چھے ماہ میں بھی نظر نہ آئیں اور اگر حاضر پائے بھی گئے تو اتنے متحرک نظر نہیں آئیں گے جتنے عدالت کے باہر پریس کانفرنسوں کے دوران نظر آتے ہیں۔
دانیال عزیز ہوں یا طلال چوہدری، طارق فضل چوہدری ہوں یا مریم اورنگزیب، سب کا اگر ریکارڈ نکال کر دیکھا جائے تو قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں ان کا کردار نہ ہونے کے برابر ہوگا، اور اگر بات ہو نواز شریف اور ان کی فیملی کے دفاع کی تو ان اراکین کے مارکس آپ کو فل بٹہ فل نظر آئیں گے۔
حالیہ دنوں میں ان صاحبان کی کمٹمنٹ دیکھ کر میرے ذہن میں دو سوالات جنم لیتے ہیں۔
پہلا سوال یہ کہ ان اراکین کی اس باقاعدگی کی وجہ کیا ہے؟
اور دوسرا سوال یہ کہ اگر ایسا ہی پاناما کیس شریف خاندان پر مشرف دور میں چل رہا ہوتا تو ان اراکین کی یہ دلچسپی اورحاضری ایسی ہی نظر آتی جتنی آج کل ہے؟
یہ بات لکھتے ہوئے دانیال عزیز کا چہرہ بار بار میرے سامنے آ رہا ہے، جن کی آواز صبح صبح کورٹ کے باہر شریف خاندان کے دفاع میں سب سے اونچی ہوتی ہے۔ عدالتی کارروائی سے فارغ ہو کر غالباً موصوف اپنی نیند پوری کرتے ہوں گے اور شام ہوتے ہی پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کی راہ لیتے ہیں، اور دوبارہ وہی باتیں دہراتے ہیں جو صبح اعلیٰ عدلیہ کے باہر کرتے ہیں۔
اس ملک کا وزیرِ ریلوے ٹرین حادثے میں جاں بحق ہونے والے پورے خاندان کے لیے اتنا دکھی نظر نہیں آئے گا جتنا درد اس کو اس بیان پر ہوگا کہ 'وزیرِ اعظم کی زندگی کی کتاب کے چند صفحے غائب ہیں۔'
اس ملک کے وزیر دفاع کی آواز ان کم سن پاکستانی بچوں کے لیے، جو پچھلے چار ماہ سے بھارتی جیل میں قید ہیں، اتنی اونچی نہیں ہوگی جتنی اونچی شریف خاندان کے ذاتی کیس کے دفاع میں سنائی دے رہی ہے۔
اگر اس معاملے کو باریک بینی سے دیکھا جائے تو روزانہ عدالت میں بنیادی طور پر دو قسم کی حاضریاں ہوتی ہیں۔ ایک حاضری وہ جو عدالت کے اندر ہوتی ہے جس میں ان سیاستدانوں سے زیادہ ضروری حاضری دونوں فریقین کے وکلاء کی ہے۔
دوسری حاضری وہ ہے جو کورٹ کے باہر ہوتی ہے اور ان سیاستدانوں کے لیے یہ حاضری سب سے زیادہ ضروری ہے۔ کسی مذہبی فریضے کے ذریعے مثال دینا مناسب تو نہیں ہے، مگر اس سے بہتر مثال میرے ذہن میں کوئی نہیں کہ جب کسی چیز کی ضرورت ہوتی ہے تو حاجت کے نوافل پڑھے جاتے ہیں اور جب کوئی چیز حاصل ہو جائے تو شکرانے کے نوافل۔
پریس کانفرنسوں میں زور و شور سے شریف خاندان کے دفاع میں آواز اٹھانے والے افراد میں بھی کچھ ایسے ہیں جو حاجتی پریس کانفرنس کرتے ہیں اور کچھ شکرانے کی پریس کانفرنس۔
اگر تحریکِ انصاف کے اراکین کو دیکھا جائے تو ان کی مثال بھی اس سے کم نہیں۔ چوں کہ تحریکِ انصاف بھی پاکستان کی دیگر جماعتوں کی طرح ایک شخصیت کے گرد گھومتی ہے، لہٰذا اس کے بھی تمام ارکان و عہدیداران کپتان کی قربت کے خواہش مند ہیں اور اس حاضری کے پیچھے سب کے کسی نہ کسی صورت میں ذاتی مفاد جڑے ہیں۔
یہ اراکین یا تو سپریم کورٹ میں پائے جاتے ہیں یا بنی گالہ میں، یا پھر سالانہ بنیادوں پر منعقد ہونے والی تحریکِ انصاف کی ریلیوں اور دھرنوں میں۔ وزیرِ اعظم کو برا بھلا کہنے اور حکومت پر تنقید کرنے کے علاوہ اپوزیشن کا کردار کیا ہونا چاہیے، یہ اس سوچ سے نابلد نظر آتے ہیں۔ سال میں دس مہینے پارلیمنٹ کو جعلی کہتے ہیں، اور دو مہینے شور شرابے کا کردار ادا کرنے اسمبلی میں چلے جاتے ہیں۔
عوام روزانہ حاضر جناب کا نعرہ تو دونوں سیاسی پارٹیوں کی طرف سے سن رہی ہے، مگر ساتھ میں اس انتظار میں بھی ہے کہ اسی طرح صبح صبح ایسی پریس کانفرنسوں کا وہ سلسلہ کب شروع ہوگا جو ان کے حقوق کے دفاع کے لیے ہو، نا کہ کسی خاندان کے دفاع کے لیے۔ قوم قومی اسمبلی میں اس شور شرابے کے انتظار میں ہے جو اس کی اچھی تعلیم، اچھی صحت اور سستے انصاف کے حصول کے لیے کیا جائے۔
قوم اس انتظار میں ہے کہ کوئی تو سیاستدان ان کے لیے کھڑا ہو اور اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر کہے، "حاضر جناب۔"
وقاص علی چوہدری ڈان نیوز اسلام آباد میں کرنٹ افیئرز پروڈیوسر ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔