پشاور کے نواح میں ایک افغان خاتون افغانستان جانے کے لیے ٹرک میں سوار ہونے کا انتظار کر رہی ہیں— اے ایف پی
'اردو سیکھنا میرا شوق بن گیا تھا'
سحر بلوچ
54 سالہ غازی خان، 1980 میں پاکستان ہجرت کرنے والے افغان پناہ گزینوں کی دوسری نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔
یہ کراچی کے پررونق بازار الآصف اسکوائر کے چند واحد افراد میں سے ہیں جو کہ اپنی مادری زبان فارسی کے ساتھ ساتھ روانی سے اردو بھی بول سکتے ہیں۔
ان کا خاندان اور بہن بھائی مشرقی افغانستان میں اپنے آبائی گھر سے تقریباً 15 روز کا تھکا دینے والا سفر پیدل طے کرکے طورخم کے ساتھ پاکستان میں داخل ہوئے۔ یہاں پہنچنے کے بعد انہیں کئی نئی چیزیں سیکھنی تھیں اور پاکستانی معاشرے میں گھل ملنا تھا۔
غازی نے جلد ہی اردو سیکھنا شروع کر دی کیونکہ انہیں اکثر ملازمت صرف اس وجہ سے نہیں ملتی تھی کہ وہ زبان نہیں سمجھ سکتے تھے۔
غازی نے بتایا کہ، 'زبان سیکھنا ان کا شوق بن گیا تھا'۔
جب کہ ان کی دوسری ترجیح ملازمت کی کی تلاش تھی۔
انہوں نے بتایا کہ، 'اس وقت پاکستان آنے والے افغان شہریوں کی دو قسمیں تھیں۔ ایک وہ جو کہ پاکستان میں ٹرانسپورٹ کے کاروبار میں انویسٹ کر سکتے تھے جب کہ دوسرے میرے والد کی طرح جو دیہاڑی پر ملازمت کرتے تھے۔ پکتیہ میں اپنی زمین بیچ کر بھی ہمیں مناسب رقم نہیں ملی اس لیے شروع کے کچھ سال ہمارے خاندان کے لیے انتہائی مشکل تھے'۔
ایک چائے کہ دکان اور پھر گیراج میں کام کرنے کے بعد ان کے والد نے پکتیہ کے ہی کچھ دوستوں کے ساتھ مل کر الآصف اسکوائر پر ایک دکان خریدی۔
اس دکان کو بعد ازاں غازی نے مکمل طور پر سنبھال لیا۔
اب صورتحال کافی تبدیل ہو چکی ہے۔ وہ اپنے کاروبار سے خوش نہیں ہیں اور ان کا کاروبار بھی گزشتہ کچھ ماہ سے انتہائی کم ہو گیا ہے۔
ہم بھی وہی ترانہ پڑھتے ہیں جو باقی پاکستانی پڑھتے ہیں اور ہم اس ملک سےمحبت کرتے ہیں۔'
وہ بتاتے ہیں کہ 'لوگوں پاکستان اور افغانستان کے درمیان مسلسل دشمنی سے سخت مایوس ہیں۔ یہ ہماری غلطی نہیں ہے۔'
انہوں نے یہ کہتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی کہ، ' دنیا بھر میں اگر کوئی شخص کسی ملک میں پانچ سے 10 سال اگر رہتا ہے تو اسے شہریت ملتی ہے۔ ہم نے یہاں اپنی زندگی کی تین دہائیاں گزاری ہیں اور اب بھی ہمیں مہاجرین کہا جاتا ہے'۔
انہوں نے کہا کہ، 'یہ ہم ہی جو کہ ابھی تک افغانستان اور پاکستان کے درمیان تعلق کو اپنی اولاد میں ثقافت، زبان اور روایت کے ذریعے زندہ رکھے ہوئے ہیں۔'
غازی اس بات پر پریشان ہیں کہ، کیسے اگلی افغان نسل باقی رہے گی اگر انہیں افغانستان واپس جانا پڑا۔ انہوں نے ڈان کو بتایا کہ یہ بچے اردو بولنے کو ترجیح دیتے ہیں اور فارسی یا پشتو روانی سے نہیں بول سکتے۔
'اب ہمارے پیچھے پکتیہ میں اپنے رشتہ داروں سے کوئی روابط نہیں ہیں۔ وہ غیرقانونی طور پر ہماری زمینوں پر قابض ہو چکے ہیں یا انہیں ان کی اصل مالیت سے کم میں بیچ چکے ہیں۔ رشتہ داروں سے اس نفرت کی وجہ سے زبان اور رہن سہن جیسا تعلق بھی ٹوٹ چکا ہے۔'
ستمبر 2013 میں کراچی آپریشن شروع ہونے کے بعد سے پولیس اور رینجرز کی جانب سے مہاجرین کے پی او آر کارڈز مسلسل چیک کیے جانے سے پاکستان کی جانب سے افغان مہاجرین کو واپسی بھیجنے کا سلسلہ ایک مرتبہ پھر سے شروع ہوا ہے۔
غازی کا کہنا ہے کہ، جھنجھر گوٹھ اور گردونواح میں سیکورٹی سرچ کے دوران افغان شہریوں کو فوری طور پر گرفتار کر لیا جاتا ہے۔
غازی کے مطابق، 'اب ایسا مقام آ گیا ہے کہ ہمیں عزت کے لئے بھی بھیک مانگنا پڑتی ہے۔ ہم بھی وہی ترانہ پڑھتے ہیں جو باقی پاکستانی پڑھتے ہیں اور ہم اس ملک سے محبت کرتے ہیں۔'