فوٹو وائٹ سٹار
'میں اپنے بچوں اور شوہر کو چھوڑ کر افغانستان کیسے چلی جاؤں؟'
سراج الدین | عبدالرؤف یوسفزئی
پاکستان میں رہنے والے افغان مردوں سے شادی کرنے والی پاکستانی خواتین کے شب و روز غیر یقینی سے بھرپور ہوتے ہیں۔ ایسے ہی ایک دن ایسی کئی خواتین پشاور میں اپنے شوہروں کی ملک بدری کے خلاف احتجاج کر رہی تھیں۔
پلے کارڈز میں سے ایک پر تحریر ہے، "ہمارا ساتھ دو، صدر میاں نواز شریف، خدا کے لیے"۔
احتجاجی خواتین میں سے ایک رضیہ ہیں، چھے بچوں کی والدہ، جنہوں نے 1992 میں ایک افغان پناہ گزین سے شادی کی تھی۔ 20 سال سے طویل خوشگوار شادی کے بعد اب ان کی شادی کا مستقبل غیر یقینی کے پلِ صراط پر چلنے پہ مجبور ہے۔
اور اب رضیہ افغانستان جانے سے انکاری ہیں، مگر ان کے شوہر کے پاس اس سلسلے میں کوئی اور انتخاب نہیں ہے۔ پاکستان میں افغان مہاجرین کے خلاف کریک ڈاؤن کا مطلب ہے کہ ان کا گھرانہ ٹوٹ جائے گا۔
"میں پاکستانی ہوں، میرے بچے پاکستانی ہیں، وہ یہاں پیدا ہوئے اور پلے بڑھے ہیں،" انہوں نے ڈان ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے بتایا، "مگر اعلیٰ حکام ہماری بات سننے کو تیار نہیں۔"
نوشین بی بی کو وہ افسوسناک دن بخوبی یاد ہے جس دن انہوں نے اپنے روسی افواج کے خلاف برسرِپیکار اپنے بھائی کو کھویا تھا۔ اس وقت وہ محض تین سال کی تھیں۔
37 سال بعد بھی وہ یادیں ان کی زندگی تلخ بنائے ہوئے ہیں۔ ان کے بچپن کی اچھی یادوں میں صرف ان دنوں کی یاد ہے جب ان کا خاندان قندوز سے بھاگ کر پاکستان جانے میں کامیاب ہوا۔
اور تب پشاور میں ان کی زندگی شروع ہوئی، جہاں وہ اور ان کا گھرانہ 'اندرونِ شہر' میں رہائش پذیر تھے۔
سالہا سال بعد ایک نوجوان پاکستانی مرد اس علاقے میں اپنی خالہ سے ملنے آیا تھا، جب اس نے نوشین کو، اور یقیناً نوشین نے بھی اس کو دیکھا۔ وہ شرماتے ہوئے کہتی ہیں، "ان کی شخصیت کافی وجیہہ تھی۔" یہ پہلی نظر میں محبت تھی۔
وہ جھینپتی نگاہوں کے ساتھ بتاتی ہیں، "ہم دونوں شادی کے لیے راضی ہوگئے،" اور یوں اس جوڑے نے اپنے خاندانوں کی رضامندی سے شادی کر لی۔
ان کی تین بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں۔ نوشین کے بچے پشاور میں پیدا ہوئے؛ ان کے سسرالی اور ان کے شوہر پاکستانی ہیں، مگر وہ خود نہیں ہیں۔
"میں پاکستان چھوڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتی، میں کیسے اپنے بچوں اور شوہر کو یہاں چھوڑ کر واپس چلی جاؤں؟"
"کیا آپ کو لگتا ہے کہ انہیں افغانستان میں صحت و تعلیم کی وہ سہولیاتملیں گی جو انہیں پاکستان میں دستیاب ہیں؟"
"حکومت ہمارے خاندان کو نہیں توڑ سکتی،" بھرّائی ہوئی آواز میں نوشین یہ کہتی ہیں اور اپنی سب سے کم عمر بیٹی کو اپنی بانہوں میں بھر لیتی ہیں۔
انہیں فکر ہے کہ اگر ان کے بچوں کو بھی افغانستان جانا پڑا، تو ان کے مستقبل کا کیا بنے گا۔ "کیا آپ کو لگتا ہے کہ انہیں افغانستان میں صحت و تعلیم کی وہ سہولیات ملیں گی جو انہیں پاکستان میں دستیاب ہیں؟" پھر وہ پیشگوئی کے سے انداز میں کہتی ہیں، "میں تو افغانستان میں اگلے 50 سال بھی امن قائم ہوتا ہوا نہیں دیکھ رہی۔"
ستم ظریفی یہ ہے کہ ان کے پاکستانی شوہر پاکستان میں نہیں رہتے۔ وہ سعودی عرب میں کام کرتے ہیں اور اپنے خاندان کے لیے وہاں سے رقم بھیجتے ہیں۔
نوشین کے لیے پاکستان اور افغانستان، دونوں ہی ان کی شناخت کا حصہ ہیں، "میں افغانستان اور پاکستان میں فرق نہیں کر سکتی، میں وہاں پیدا ہوئی تھی، مگر میں نے زندگی یہاں گزاری ہے۔"
عارضی ریلیف
سردیوں کے دوران اقوامِ متحدہ کے کمیشن برائے پناہ گزین افراد نے افغان مہاجرین کی ملک بدری عارضی طور پر معطل کر دی ہے۔
آئی ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق 2016 میں سات لاکھ افغان اپنے آبائی ملک واپس لوٹے۔ زیادہ تر کا تعلق پاکستان سے تھا۔
2002 سے اقوامِ متحدہ کے کمیشن برائے پناہ گزین افراد کے رضاکارانہ طور پر وطن واپسی کے پروگرام کے تحت 42 لاکھ افغان مہاجرین اپنے وطن واپس لوٹ چکے ہیں۔
اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے ادارے کے ایک ترجمان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اب بھی 13 لاکھ 40 ہزار کے قریب رجسٹرڈ مہاجرین رہائش پذیر ہیں۔ ان کے مطابق غیر رجسٹرڈ پناہ گزینوں کی تعداد پانچ لاکھ کے قریب ہے۔
اس سے پاکستان میں موجود افغانوں کے درمیان غیر یقینی میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق ملک بدری 1 مارچ 2017 سے دوبارہ شروع ہوگی۔