لکھاری صحافی اور مصنف ہیں.
گزشتہ ہفتے ڈونلڈ ٹرمپ نے یک جنبشِ قلم سے 7 مسلم اکثریتی ممالک کے لوگوں کے لیے اپنے ملک کے دروازے بند کرتے ہوئے امریکا اور دنیا کو ایک انتہائی کشمش سے دوچار کر دیا۔ ایک مخصوص مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو ہدف بنانے والی اس شرانگیز قانونی دستاویز کا اجرا ماضی قریب کے کسی بھی بدترین نسلی تعصب سے زیادہ مکروہ مثال ہے۔
اور یہ تو محض ایک شروعات ہی ہے۔
پاکستان اور افغانستان سے آنے والے مسافروں کی سخت جانچ پڑتال کے احکامات پہلے ہی جاری ہو چکے ہیں اور ان کے امریکا میں داخلے پر مکمل پابندی کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ امریکا میں مسلمان آبادی کی رجسٹریشن کا عمل بھی مبینہ طور پر زیر غور ہے جس سے کسی حد تک نازی حکومت کے طرزِ عمل جیسی بدترین مثال قائم ہوگی۔
بظاہر پابندی عائد کرنے کا مقصد ملک کو مزید محفوظ بنانا ہے مگر ایسی کوئی ایک بھی مثال نہیں ملتی کہ امریکا میں ہونے والی دہشتگرد سرگرمیوں میں ان ساتوں ملکوں کا کوئی شہری شامل ہو؛ بلکہ وہ تمام ممالک امریکی فوجی حملوں اور دہشتگردی کا خود شکار رہ چکے ہیں۔ خاص طور پر عراق جسے امریکی جنگ نے تباہ حال کر دیا ہے، جس جنگ کی ٹرمپ نے اپنی پوری انتخابی مہم میں پرزور مذمت بھی کی تھی۔
اس میں کوئی تعجب نہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ کے انتہاپسند قوم پرستانہ اقدامات پر دولت اسلامیہ جیسے جہادی گروپس جشن منا رہے ہیں۔ اس اقدام نے 'اسلام بمقابلہ مغرب' کے ان کے انتہاپسندانہ نظریے کو مزید تقویت بخشی ہے۔ دولت اسلامیہ کی حامی ایک ویب سائٹ نے امریکا میں مسلمانوں کے داخلے پر پابندی کو ایک 'رحمت' قرار دیا ہے۔ پابندی کی فہرست میں شامل تمام ممالک اپنی زمینوں پر دولت اسلامیہ سے جنگ لڑتے آ رہے ہیں۔
امریکا اور مغربی دارالحکومتوں میں ہونے والے بڑے احتجاجی مظاہروں کے باوجود ٹرمپ ازم رکتا ہوا نظر نہیں آ رہا، اور دنیا کو مزید خطرے اور عدم تحفظ کی طرف دھکیلتا جا رہا ہے۔ یہ قابل فہم ہے کہ اس وقت دنیا کی واحد سپر پاور، جس پر جغرافیائی سیاسی نظام کا دارومدار ہے، وہاں براجمان لاپرواہ صدر کی موجودگی سے سب سے زیادہ پریشان واشنگٹن کے روایتی اتحادی ہیں۔ اب اس نظم و ضبط کو ایک بدمعاش رہنما کی پالیسوں سے خطرہ لاحق ہے۔
یہ بات بھی قابلِ فہم ہے کہ ٹرمپ کے انتہاپسندانہ اقدامات پاکستان کے لیے بھی باعثِ تشویش ہیں۔ نومبر میں ٹرمپ کے منتخب ہونے کے بعد ٹرمپ اور پاکستانی وزیرِ اعظم کے درمیان دوستانہ ٹیلی فونک گفتگو کے باوجود بھی واشنگٹن سے کچھ خاص امید افزاء اشارے نہیں مل رہے۔ یہ ابتداء سے واضح تھا کہ نئی انتظامیہ جماعت الدعوۃ جیسی پاکستانی عسکریت پسند تنظیموں کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے اسلام آباد پر دباؤ بڑھائے گی۔
سو شریف حکومت نے ہمیشہ کی طرح صورتحال کے پرامن طریقے سے ٹلنے کا انتظار کیا، مگر ٹرمپ کے اپنی انتخابی مہم کے دوران کیے گئے وعدوں پر تیزی سے عمل پیرا ہونے اور پاکستانیوں کے امریکا آنے پر پابندی کا خطرہ سر پر منڈلانے سے اب بے چینی کے آثار نمودار ہونے لگے ہیں۔
جماعت الدعوۃ کے خلاف ڈرامائی کارروائی اور حافظ سعید کو نظر بند کرنے کا فیصلہ اس بے چینی کو نمایاں کرتا ہے۔ دلچسپ طور پر کارروائی کا آغاز ایک قومی اخبار میں اس خبر کی اشاعت کے چند گھنٹوں بعد ہوا جس کے مطابق اگر پاکستان نے اس گروپ کے خلاف فوری طور پر کارروائی نہ کی تو پاکستان کو بھی پابندی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
کئی برسوں سے اسلام آباد واشنگٹن اور دیگر ممالک کی جانب سے ان گروپس کے خلاف کارروائی کے دباؤ کے خلاف مزاحمت کرتا رہا تھا جو پاکستان میں عسکریت پسندی کے خلاف جنگ کے باوجود بھی مختلف ناموں کے سائے میں اب بھی محفوظ بنے رہے تھے۔ یہ تو واضح تھا کہ جماعت الدعوۃ، لشکر طیبہ کا نیا نام تھا، جو پاکستانی جنگجو تنظیموں میں سب سے زیادہ خطرناک تنظیم تھی، جس پر بیرونی دباؤ کے پیش نظر 2002 میں پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
اقوام متحدہ کی جانب سے جماعت الدعوۃ کا نام دہشتگرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کرنے کے بعد پاکستان پر جماعت کے دفاتر کو بند کرنے پر دباؤ ڈالا گیا۔ مگر لاہور ہائی کورٹ بینچ کے مطابق تنظیم پر پابندی عائد کرنے کی کوئی ٹھوس وجہ نہ ہونے کے باعث مزید کارروائی نہیں ہو پائی تھی۔ اس طرح اسلام آباد کو بھی بین الاقوامی دباؤ کی مخالفت کرنے کے لیے ایک مناسب بہانہ حاصل ہو گیا۔
حافظ سعید آزادانہ طور پر ریلیوں سے خطاب کر رہے تھے اور پرائم ٹائم ٹی وی پر نمودار ہو رہے تھے جس کے باعث پاکستان کے دہشتگردی اور انتہاپسندی کی لعنت سے نمٹنے کے دوہرے معیار کے حوالے سے بین الاقوامی شکوک و شبہات کو تقویت پہنچ رہی تھی۔
2008 کے ممبئی حملوں میں اس کالعدم تنظیم کے ممبران کی شمولیت ظاہر ہونے کے بعد جماعت الدعوۃ اور اس کے رہنماؤں کے خلاف کارروائی کرنے کے بین الاقوامی برادری کے مطالبے میں اور بھی سختی آ گئی۔ اشتعال میں اس وقت اور بھی اضافہ ہوا جب ذکی الرحمان لکھوی، جو حملے کے مبینہ ماسٹر مائنڈ تھے، کو عدالت کی جانب سے آزاد کر دیا گیا تھا۔ ان تمام باتوں کی وجہ سے ملک کے اندر پر تشدد انتہاپسندی کے خلاف حاصل ہونے والی کامیابیاں دھندلا گئیں۔
مگر اب جماعت الدعوۃ کے خلاف نیم دلی سے دیرینہ کارروائی اور اس کے رہنماؤں کی نظر بندی شاید بین الاقوامی برادری خاص طور پر ٹرمپ انتظامیہ کو مطمئن نہیں کر سکے۔ جیش محمد جیسے کالعدم انتہاپسند گروپ اور اس کے رہنما مولانا مسعود اظہر، جو کئی سالوں تک منظرنامے سے غائب رہنے کے بعد ایک بار پھر منظر عام آئے ہیں، کے خلاف کارروائی کرنے کے حوالے سے دباؤ مزید بڑھے گا۔
جیش محمد 2002 میں کالعدم قرار دیے جانے کے بعد مختلف گروہوں میں بٹ گئی، اور اس کے کئی سینیئر ممبران پاکستان کے اندر ہونے والی دہشتگرد حملوں میں شامل تھے۔
مولانا اظہر گزشتہ سال کے اواخر میں اس وقت ایک بار پھر توجہ کا مرکز بنے جب جیش محمد پر پٹھان کوٹ میں واقع ہندوستانی ایئر بیس پر ہونے والے حملے کی منصوبہ بندی کا الزام عائد ہوا۔ حملے میں شمولیت کے شک میں چند جیش محمد رہنماؤں کے خلاف مقدمات بھی درج کیے گئے، مگر مولانا اظہر آزاد رہے۔ پاکستان اقوام متحدہ کی جانب سے انہیں دہشتگرد قرار دینے کی قرارداد کو چین کی مدد سے روکنے میں کامیاب رہا۔ مگر یہ کامیابی زیادہ عرصہ برقرار نہیں رہ سکتی۔ یہ اسلام آباد کے لیے ایک دوسرا امتحان ہوگا۔
پاکستان پر دباؤ کا باعث بننے والا دوسرا نکتہ ڈاکٹر شکیل آفریدی، جنہوں نے اسامہ بن لادن کی تلاش میں سی آئی اے کی مدد کی تھی، پر غداری کے الزامات لگا کر انہیں قید میں رکھنا ہے۔ ٹرمپ نے یہ وعدہ کیا تھا کہ صدارت سنبھالنے کے بعد چند دنوں کے اندر ہی انہیں آزاد کروا کر امریکا لے آئیں گے۔ یہ پاکستانی حکومت کے لیے ایک بہت نازک صورتحال ہے۔ یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ اسلام آباد کس طرح انتہائی حساس مسائل سے نمٹتا ہے اور بدمعاش امریکی انتظامیہ کی جانب سے اپنے خلاف کارروائیوں سے محفوظ رہتا ہے۔
اگرچہ ٹرمپ انتظامیہ ابھی تک کوئی واضح افغان پالیسی نہیں رکھتی، مگر اس بحران سے کس طرح نمٹنا ہے، یہ بات اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان تنازع کا باعث بنی رہی ہے۔ افغان طالبان کے مضبوط ترین گروہ حقانی نیٹ ورک، جس کے بارے میں مانا جاتا ہے کہ وہ پاکستان میں موجود اہنے ٹھکانوں سے کارروائیاں کر رہا ہے، کے خلاف کارروائی کرنے کے حوالے سے امریکا کے پاکستان پر مسلسل دباؤ ڈالنے کے چند اشارے بھی ملے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کو اپنے قومی مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے ان گروپس کے خلاف بہت پہلے کارروائی کرنی چاہیے تھی۔ اگر ہم نے ٹرمپ کے وار کا انتظار کرتے ہوئے زیادہ دیر کی تو یقیناً ہمیں زیادہ شرمندگی اٹھانی پڑے گی۔ کیا ہم پہلے ہی ٹرمپ گردی کی زد میں نہیں آ چکے؟
یہ مضمون ڈان اخبار میں یکم فروری 2017 کو شائع ہوا۔
انگلش میں پڑھیں