یورپ کی نشاۃِ ثانیہ میں مصوری کی نئی جہتیں (پہلا حصہ)
یورپ کی نشاۃِ ثانیہ میں مصوری کی نئی جہتیں (حصہءِ اول)
مجھے ہمیشہ سے ہی مصوری کی تاریخ اور خاص طور پر یورپ کی نشاۃِ ثانیہ کے دور میں جنم لینے والے کلاسیکی آرٹ میں دلچسپی رہی ہے۔ نشاۃِ ثانیہ، جسے انگلش میں Renaissance (ریناساں) کہتے ہیں، سے مراد تاریخ کا وہ دور ہے جب یورپ میں علمی، ادبی اور فنون لطیفہ کی مختلف اقسام میں نمایاں تبدیلیاں رونما ہوئیں، جنہوں نے بالآخر یورپی اقوام کو اندھیروں اور گمنامی سے نکال کر ترقی یافتہ اقوام کی فہرست میں لا کھڑا کیا۔
مضمون کی وسعت کے پیشِ نظر تاریخ کے اس اہم دور کو چند سطروں میں لکھنا کافی مشکل ہے۔ چنانچہ اس بلاگ اور آنے والے چند بلاگز کے ذریعے میری کوشش ہو گی کہ ان چند مصوروں کے کام پر روشنی ڈالی جائے جو مصوری کے میدان میں اپنے کام کی بدولت کوئی اہم تبدیلی لے کر آئے۔
اس بلاگ میں پیش کی گئی معلومات مختلف ویب سائٹس اور 16 ویں صدی کی مصوری پر لکھی چند کتابوں سے لی گئی ہے۔ اس مضمون کو لکھنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس موضوع پر اردو میں معلومات بہت کم ہیں، یا سرے سے موجود ہی نہیں۔ اس حوالے سے یہ ایک کوشش ہے کہ اس موضوع پر اردو میں کچھ بنیادی معلومات میسر ہو۔
پیٹر ایرٹسن: روز مرہ کی زندگی اور جامد اشیاء کی مصوری کا ملاپ
اس سلسلے کے پہلے مضمون کے لیے جس مصور کے کام کو پیش کیا گیا ہے، ان کا نام پیٹر ایرٹسن ہے۔ ان کا تعلق موجودہ دور کے نیدرلینڈز اور بیلجیئم کے علاقے سے تھا۔ اس مصور کا تعلق اس دور سے ہے جس کو تاریخ میں شمالی نشاۃِ ثانیہ کا نام دیا گیا ہے۔ 'شمالی' لفظ کا استعمال اس لیے کیا گیا کیوں کہ تبدیلی اور احیاء کے دور کا آغاز اٹلی سے ہوا اور پیٹر ایرٹسن کا تعلق تبدیلی کی اس تحریک سے تھا جو ان ممالک میں جاری تھی جو اٹلی کے شمال میں واقع ہیں۔ جس دور کو آج ہم ریناساں کا نام دیتے ہیں اس وقت کے لوگوں نے اسے یہ نام نہیں دیا بلکہ کافی عرصہ بعد (تقریباً اٹھارہویں صدی میں) لکھاریوں اور محققین نے یہ اصطلاح تجویز کی۔
پیٹر ایرٹسن کو (still life painting) یعنی جامد اور بے جان اشیاء کی نقاشی کا ماہر اور شمالی نشاۃِ ثانیہ کے زیرِ اثر علاقوں میں اس طریقے کو اپنانے والے اولین نقاش میں شمار کیے جاتے ہیں۔ پیٹر ایرٹسن کی وجہ شہرت مصوری کی ایک نئی قسم کا آغاز اور اپنے ہم عصروں کو مصوری کی ایک نئی جہت سے روشناس کروانے کے حوالے سے ہے۔
اُس دور کے بیشتر یورپی مصورین کی طرح پیٹر کا کام بھی مذہب سے کافی متاثر تھا۔ اس بنا پر ان کی بہت سی پینٹنگ میں مذہبی واقعات اور شخصیات علامتی طور پر دکھائی دیتے ہیں۔
مگر نشاۃِ ثانیہ کے تحت زندگی کے ہر میدان میں آہستہ آہستہ تبدیلیاں رونما ہو رہی تھیں اور یہ اسی تبدیلی کا اثر تھا کہ پہلے بیشتر مصور مذہب کو اپنی پینٹنگ کا موضوع بناتے، مگر اس بدلتے معاشرے کے زیرِ اثر مصورین نے بھی زندگی کے دیگر پہلوؤں کو اپنے فن کا موضوع بنایا۔
پیٹر ایرٹسن نے بھی مذہبی مصوری کے بجائے ایک ایسا طریقہ اپنایا کہ جس میں مذہب اور لوگوں کی روزمرہ کی زندگی کو جامد اور بے جان اشیاء کی مصوری کے ملاپ کے ساتھ پیش کیا۔ دو مختلف طریقوں کے ملاپ نے پینٹنگز میں حقیقت پسندی کا روپ بھر دیا۔ ان پینٹنگز میں جامد اشیاء کو بھی مختلف مذہبی اور سماجی واقعات کی علامت کے طور پر پیش کیا گیا۔
اس طرز کی مصوری نے ایک نئے رجحان کا آغاز کیا جس کو عوام میں بھی کافی پذیرائی ملی۔ اس سے پہلے عموماً مصور کلیساؤں کے لیے کام کیا کرتے تھے۔ اس نئے طریقے کے تحت مذہب کے ساتھ ساتھ معاشرے کی بھی منظر کشی کی گئی، جس سے عام افراد میں ان سے ایک تعلق کا احساس پیدا ہوا۔
پیٹر ایرٹسن کے بہت سے فن پارے، پروٹسٹنٹ فرقے کی جانب سے مذہبی اصلاحات کے لیے جو شبیہات کے خلاف اور بت شکنی کی تحریک چلائی گئی اس کی نظر ہو گئے۔ اس تحریک کا مقصد مذہبی پینٹنگز میں مقدس ہستیوں کے چہرے کی نمائش کی حوصلہ شکنی کرنا تھا۔ اس کے باوجود آج جو چند پینٹنگز موجود ہیں وہ اپنے منفرد انداز اور مضامین کی نوعیت بناء پر فن مصوری سے وابستہ طالب علموں اور محققین میں یکساں مقبول ہیں۔
پیٹر ایرٹسن کی چند مشہور پینٹنگز یہاں پیش کی گئی ہیں۔ ان پینٹنگز میں مذہبی، سماجی اور اخلاقی پہلوؤں کی منظر کشی کی گئی ہے۔ تحقیق کرنے والوں نے ان پینٹنگز میں چھپی علامات کی بہت سی توجیہات پیش کی ہیں، جن میں سے چند مشہور کا یہاں ذکر بھی شامل کیا گیا ہے۔
پہلی نظر میں یہ پینٹنگ گوشت کی دکان کا منظر پیش کرتی ہے۔ اگر صرف پینٹنگ کے پیش نما پر غور کیا جائے تو یہ ایک جامد و بے جان اشیا کی مصوری کا نمونہ ہے۔ اسی پینٹنگ کے پس منظر میں حضرت مریم علیہ السلام کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ سفر مصر کے واقعے کی طرف اشارہ ہے، انہیں غرباء میں خیرات تقسیم کرتے دکھایا گیا ہے۔ اس واقعے کا ذکر عیسائیوں کی مذہبی کتب میں موجود ہے، دائیں طرف کے پس منظر میں کسی چائے خانے کو دکھایا گیا ہے۔