انسانوں کے خلاف بحیرہءِ ارال کا مقدمہ
انسانوں کے خلاف بحیرہءِ ارال کا مقدمہ
بحیرہءِ ارال، جو حقیقتاً 67,300 مربع کلومیٹر کے رقبے پر پھیلی ہوئی ایک تازہ پانی کی جھیل تھی، 1960 سے ایک ایسی تباہی قرار دی جاتی ہے جس کی وجہ انسان ہے۔
جغرافیائی طور پر بحیرہءِ ارال بحیرہءِ کیسپیئن سے 600 کلومیٹر مشرق میں واقع ہے۔ یہاں 1100 سے زیادہ جزیرے تھے جو ایک دوسرے سے چھوٹی بڑی جھیلوں اور آبناؤں کے ذریعے ایک دوسرے سے علیحدہ تھے، جس کی وجہ سے اسے اس کے قزاخ نام 'ارال' سے جانا جاتا ہے جس کے معنیٰ جزیرے کے ہیں۔
دریائے آمو اور دریائے سیر اس جھیل کو صدیوں تک تازہ پانی فراہم کرتے رہے، یہاں تک کہ سوویت حکام نے وسطی ایشیا میں آبپاشی اور صنعتی مقاصد کے لیے ان دریاؤں کا رخ موڑ دیا، چنانچہ بحیرہءِ ارال سکڑنے لگا۔ 1991 تک یہ اپنا آدھے سے زیادہ حصہ گنوا چکا تھا۔
بحیرہءِ ارال کے کٹاؤ سے نہ صرف وسیع پیمانے پر ایک ماحولیاتی تباہی نے جنم لیا، بلکہ قازقستان اور ازبکستان کو تازہ پانی کی فراہمی بھی متاثر ہوئی جو کہ بحیرہءِ ارال پر منحصر تھے۔ ماہی گیری، نباتات اور حیوانات میں کمی واقع ہونے لگی۔ 1999 میں ورلڈ بینک نے بحیرہءِ ارال کو دریائے آمو اور دریائے سیر کے ذریعے دوبارہ تازہ پانی فراہم کرنے کا منصوبہ پیش کیا، مگر یہ منصوبہ اپنے نفاذ سے اب بھی بہت دور ہے۔