لائف اسٹائل 'رئیس' ریویو: ماہرہ کا کردار سے بخوبی انصاف شاہ رخ اور ماہرہ کی 'رئیس' اب تک پاکستان میں ریلیز نہیں کی گئی،تاہم یہاں پڑھنے والوں کیلئے فلم کا ریویو پیش کیاجارہاہے۔ مہوش اعجاز 'رئیس' ریویو: ماہرہ کا اپنے کردار کے ساتھ انصافمہوش اعجاز شاہ رخ خان اور ماہرہ خان کی فلم 'رئیس' 25 جنوری کو سینما گھروں میں نمائش کے لیے پیش کی گئی — فوٹو/ فائل بولی وڈ میں ماہرہ خان کی ڈیبیو فلم 'رئیس' اب تک پاکستان میں ریلیز نہیں کی گئی اور سب ہی جاننا چاہتے ہیں کہ آخر 'رئیس' کی کہانی ہے کیا؟چونکہ یہ فلم ہم نے خود نہیں دیکھی، لہذا ہم نے ایک ایسی لکھاری سے ریویو لکھوایا جنہوں نے دبئی میں فلم 'رئیس' دیکھی، تاکہ اپنے پڑھنے والوں کے لیے 'رئیس' کی کہانی اور پرفارمنس کے بارے میں بتایا جاسکے۔کیا یہ بلاک بسٹر فلم ہے؟ کیا واقعی ماہرہ خان نے اپنی پرفارمنس سے مایوس کیا؟ یا پھر انڈین میڈیا نے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جاری کشیدگی کے باعث ماہرہ کو تنقید کا نشانہ بنایا؟اس کا فیصلہ آپ خود اس ریویو کو پڑھ کر کریں:ریویو : رئیس شاہ رخ خان فلموں میں گانوں کے بول دھرانے اور برفانی وادیوں میں ناچنے سے زیادہ بہت کچھ کرسکتے ہیں، انہوں نے رئیس سے ثابت کیا کہ وہ اداکاری کرسکتے ہیں۔شاہ رخ خان نے خود پر تنقید کرنے والوں کو اس فلم کے ذریعے دکھایا کہ وہ صرف لڑکی کو مہنگی گاڑی میں گھمانے والے کردار کرنے والے اداکار نہیں، اگر ان کے کیریئر پر ایک نظر ڈالی جائے اور فلم 'رئیس' کے انتخاب پر غور کیا جائے تو یہ خود ایک کہانی ہے، اس فلم میں شاہ رخ خان نے کوئی رومانوی کردار نہیں کیا بلکہ مسائل سے گھرے معاشرے میں رہنے والے ایک جارحانہ رویے اور مشکلات کو پیش کیا۔2016 میں شاہ رخ خان نے فلم 'ڈیئر زندگی' کے ذریعے اپنی کارکردگی کا مظاہرہ کیا، اس فلم میں انہوں نے ایک تھراپسٹ کا کردار ادا کیا تھا جو ایک لڑکی کو اس کے مسائل سے نمٹنے کی طاقت دیتا ہے، فلم 'رئیس' میں شاہ رخ خان نے ایسے مجرم کا کردار ادا کیا جس کا دل بہت اچھا ہے، ان دونوں ہی فلموں میں شاہ رخ خان نے 90 کی دہائی کے دقیانوسی کرداروں کے برعکس کچھ کر دکھایا۔ اب سینما تبدیل ہورہا ہے، فلموں کے پلاٹ ایسی کہانیوں میں تبدیل ہورہے ہیں جنہیں دیکھ کر شائقین حیران ہونے کے ساتھ خود سے انہیں جوڑ بھی سکیں اور شاہ رخ خان ایسے کردار کرنے کے ماسٹر ہیں جنہوں نے اپنا شاندار کردار 'رئیس' میں پیش کیا۔فلم 'رئیس' برصغیر کے ایک گاڈ فادر پر مبنی فلم کا ایک ورژن ہے، جس میں آئٹم سانگز اور گجراتی کے ساتھ ڈانڈیا گانوں کو پیش کیا گیا۔کسی حد تک یہ فلم گجرات کے نامور گینگسٹر عبد اللطیف کی زندگی کی کہانی معلوم ہوتی ہے، جو جرائم پیشہ ہونے کے باوجود اپنی فیملی اور کمیونٹی کا خیال رکھتا ہے۔مزید پڑھیں: 'آج تک یقین نہیں آرہا کہ رئیس میں کاسٹ ہوں'پاکستانی اداکارہ ماہرہ خان نے اس فلم میں رئیس کی اہلیہ آسیہ کا کردار ادا کیا، جو رئیس کے جیل میں الیکشنز میں حصہ لینے کے بعد ان کا ریلیوں میں ساتھ دیتی نظر آئیں، اداکار ذیشان ایوب نے رئیس کے بچپن کے دوست صادق کا کردار ادا کیا، جبکہ نوازالدین صدیقی پولیس اہلکار مجمودار کے کردار میں نظر آئے، جو سیدھے راستے پر چلنے کے ساتھ تمام غیر قانونی سرگرمیوں کو بند کرنا چاہتے ہیں خاص کر جن کا تعلق رئیس سے ہے۔ رئیس کی کہانی اس کے بچپن سے شروع ہوتی ہے جب اس کی والدہ اسے یہ سبق سکھاتی ہیں کہ کوئی کاروبار غلط نہیں جب تک وہ کسی کو تکلیف نہ پہنچائے، اس کے بعد 1990 کے دور کو پیش کیا گیا جب رئیس اپنا ذاتی شراب کا کاروبار شروع کرتے ہیں، اس مقام پر ناظرین کے سامنے ایسے مناظر پیش کیے گئے جہاں سیاسی اور کاروباری افراد پہلے اپنا مفاد دیکھتے اور بعد میں عوام کے بارے میں سوچتے ہیں، تاہم رئیس ان تمام چوروں میں کافی بہتر نظر آیا، جو شراب فروخت کرنے کے ساتھ ساتھ معاشرے سے مثبت انداز میں تعاون کرتا ہے۔یہ بھی پڑھیں: 'رئیس' کے پاکستانی مداحوں کیلئے خوشخبریفلم کے ایکشن مناظر اور ملبوسات دیکھنے کے لائق ہیں، محرم کے جلوس کے ایک سین میں آپ راہول ڈھولکیا کی تفصیلات کی گہرائی پر دی جانے والی توجہ کو دیکھ سکتے ہیں، سین میں رئیس اپنے دشمن غنڈوں سے لڑرہا ہوتا ہے، جس کے دوران اردو نستعلیق میں 'حسین زندہ باد، یزیدیت مردہ باد' لکھا نظر آتا ہے۔اس زمانے کے انداز کو فلمبند کرنا، ماہرہ خان کی کشش، شاہ رخ خان کے حقیقی اسٹنٹ، اس قدامت پسند ایکشن فلم سے جڑنا یقینی بناتے ہیں، یہ درحقیقت گاڈ فادر کا برصغیر کا ورژن ہے، جس میں آئٹم نمبرز اور ذہن میں چپک جانے والی گجراتی ڈانڈیا دھنیں موجود ہیں۔ ماہرہ خان نے ہیروئن کا کردار اپنے انداز سے کیا اور آسانی سے فراموش کیے جاسکنے والے کردار کو مخصوص مضبوطی کے ساتھ فلم میں پاور ہاؤس پرفارمنس بنا دیا۔وہ شاہ رخ خان اور نواز الدین صدیقی جیسے اداکاروں کے درمیان اپنے آپ کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہیں جو کہ کوئی چھوٹی کامیابی نہیں۔ ان کے کردار کو دیکھنے سے ملنے والی راحت فلم کے دوسرے حصے میں متوازی ہوجاتی ہے جب رئیس اپنی بقاء کی آخری جنگ لڑ رہا ہوتا ہے۔ ماہرہ کا کردار اچھی طرح بنایا گیا اور انہوں نے اس سے انصاف بھی کیا۔ماہرہ خان نے اپنے مختصر کردار سے انصاف کیا ہے، شلوار قمیضوں میں ان کا خرد کا انداز بڑی اسکرین پر خوبصورت رہا جبکہ ان کی اور شاہ رخ خان کی محبت کی کیمسٹری کے بارے میں مجھے یقین ہے کہ دیکھنے والوں کو مزید کی طلب پر مجبور کردے گی۔ان کا کردار ایک خاموش طبع، فرمانبردار اور ایک گینگسٹر کی کچھ خوفزدہ بیوی کا ہے، جو کہ واقعی پہلے حصے میں فرسودہ لگتا ہے، مگر جب رئیس جیل جاتا ہے اور آنے والے انتخابات کے لیے ووٹوں کے حصول کے لیے اپنی برادری کی ریلی کا آغاز کرتا ہے تو آسیہ اپنی مضبوطی کا اظہار کرتی ہے، اس ڈائیلاگ کی ادائیگی کا انداز' نوٹ تم لاؤ، ووٹ میں لاؤں گی'، بہترین ٹیلنٹ کا اظہار اور ایک عام کردار کو گہرائی دیتا ہے۔یہ بھی پڑھیں: ریلیز سے قبل 'رئیس' کا نیا گانا 'دھنگانا' ریلیزایک اور سین میں ماہرہ کا کردار رئیس سے الجھتا ہے، جسے وہ مسترد کرتے ہوئے لگ بھگ اسے ضرب لگاتا ہے، بعد ازاں وہ بیوی کی گود میں سر رکھ کر روتے ہوئے اعتراف کرتا ہے کہ اسے لگتا ہے کہ وہ ناکام ہوگیا ہے۔ آسیہ کا کردار بمشکل ہی سجا ہوا نظر آتا ہے مگر ماہرہ کے پراعتماد انداز نے فلم کو ایک مختلف انداز دیا، وہ نہ تو نظرانداز کی جاسکتی ہیں اور نہ ہی انہیں بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر دکھایا گیا۔ نوازالدین صدیقی کا ایک سخت گیر پولیس افسر کا کردار سکون کا سانس فراہم کرتا ہے، جبکہ رئیس اور جے دیپ کے درمیان تناؤ کے مناظر بھی فلم میں شامل ہیں، ان میں سے ایک ان کی پہلی ملاقات کا ہے جہاں انہوں نے ڈھکے چھپے الفاظ میں دھمکیوں کا تبادلہ کیا، ان دونوں کے مشترکہ مناظر فلم کے اہم ترین مناظر ہیں، فلم کی کہانی گینگسٹر فلموں کے فارمولے جیسی ہے جیسے ستیہ، واستو اور کمپنی، مگر شاہ رخ خان اور ماہرہ خان کی مقبولیت نے رئیس کو اپنے بل پر زندگی دی ہے اور اس کرائم تھرلر کو دیکھنے کے لیے سینما ہاؤس فل جارہے ہیں۔مزید پڑھیں: ’رئیس‘ کے اداکاروں سے سیکھنے کو ملے گا،شاہ رخیہ کہنا تو مشکل ہے کہ کیا رئیس متعدد ریکارڈز توڑ سکے گی جیسے 'دنگل' یا 'سلطان' نے توڑے، مگر یہ کوئی کمزور یا فراموش کیے جانے کے لائق فلم نہیں۔ شاہ رخ خان کی اسٹار پاور پورے عروج پر ہے اور وہ ملی سیکنڈز میں خود کو بدل سکتے ہیں یعنی ایک میگا اسٹار کا جادو جو ہر شام آپ کے ساتھ چائے پینے والے عام شخص میں بدل سکتا ہے۔ رئیس لگتا ہے کہ بچن کے عہد کو خراج تحسین بھی ہے جب بچن صاحب ہر چیز کی قربانی دیتے تھے، اخلاق پر سمجھوتہ بھی کرلیتے تھے مگر پھر بھی ایک اچھے شخص رہتے تھے۔اسی طرح رئیس کی کہانی بھی نہ تو کسی ہیرو کی ہے اور نہ ہی ولن کی، یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جو کرپٹ نظام کے کرپٹ اخلاق میں رہتا ہے، مضبوط اداکار، پاور پیک ایکشن سیکونس اور ٹھوس کہانی، رئیس یقیناً اس سیزن کی دیکھنے کے لائق فلموں کی فہرست کا حصہ ہے۔ آپ کا ماہرہ خان کی پہلی بولی وڈ فلم کے بارے میں کیا خیال ہے؟ اپنی رائے کمنٹس میں دیں۔