نقطہ نظر

ڈاکٹر کی زبانی ریپ کی شکار 6 سالہ بچی کو بچائے جانے کی داستان

اس کی گردن پر موجود زخم کا معائنہ کرنے کے بعد سرجنز کا کہنا تھا کہ بچی کا بچ جانا ایک معجزہ ہے.

6 دن قبل کراچی میں کورنگی کراسنگ کے نزدیک بہنے والے نالے سے ایک 6 سالہ بچی ملی جسے جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا تھا۔ اس کا گلا کٹا ہوا تھا۔ معجزانہ طور پر وہ زندہ بچ گئی، نالے سے نکالی گئی اور اسے سول ہسپتال لے جایا گیا۔ اس کا ابتدائی معائنہ کرنے والی ڈاکٹر اس اندوہناک واقعے کی روداد بیان کرتی ہیں۔


جب اسے ایمبولینس میں اسٹریچر پر سفید چادر میں لپیٹ کر ہسپتال لے جایا جا رہا تھا، تو اس کی آنکھیں پتھرائی ہوئی تھیں۔

اسٹریچر لوہے کا تھا، میں بار بار سوچتی ہوں کہ یہ کتنا ٹھنڈا ہوگا۔

میں اس کے پاس گئی اور اس کے بازو کو چھوا۔ مجھے حیرت تھی کہ وہ کسی مردے کی طرح ٹھنڈا تھا۔ میں سوچنے لگی کہ کیا یہ بچی اب تک زندہ ہے؟

"نہیں نہیں ڈاکٹر صاحب، دیکھیں، یہ سانس لے رہی ہے!"

ایمبولینس ڈرائیور کا مجھے اتنا کہنا تھا کہ قیامت برپا ہوگئی۔

"وہ زندہ ہے، وہ زندہ ہے" کا شور مچنے لگا اور ڈاکٹرز اور طبی عملہ ایمبولینس کی جانب بھاگا۔

اس کی طرف دیکھنا بھی نہایت تکلیف دہ تھا۔ اس کا گلا کان سے کان تک کٹا ہوا تھا۔

میرا ماؤف ہوچکا ذہن یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ زخم میں خون جم جانے کی وجہ سے وہ کیسے چند منٹوں سے زیادہ زندہ بچ پائی، جبکہ وہ اس حالت میں کئی گھنٹے سے تھی۔

طبی عملہ بھی بھونچکا رہ چکا تھا، "ڈاکٹر صاحبہ، آپ کا مطلب ہے کہ یہ کچرا کنڈی میں دو گھنٹے سے پڑی ہوئی تھی؟"

"کم و بیش اتنا ہی وقت تھا"، میں نے جواب دیا۔

اس نے اچانک جھرجھری لی، اور مجھے تب احساس ہوا کہ میں نے اس کا ہاتھ تھاما ہوا تھا۔ جب میں نے اسے دلاسا دینے کے لیے اپنا ہاتھ اس کے بازو پر تھوڑا اوپر کی جانب پھیرا تو مجھے اس کا گوشت محسوس ہوا۔ اس کی کلائی میں ایک اور گہرا زخم دیکھ کر میرا دل دہل گیا۔

اس وقت مجھے احساس ہوا کہ اس نے شلوار بھی نہیں پہن رکھی تھی۔ وہ پانچ یا چھے سال سے زیادہ کی نہیں تھی، مگر اپنے میڈیکل کریئر کے کئی سالوں کے دوران میں نے زیادتی کا شکار ہونے والے اس سے بھی چھوٹے بچوں کو دیکھا ہے۔

سرجنز اس کے زخموں کا جائزہ لینے کے لیے آ پہنچے۔ اس کی گردن پر موجود زخم کا معائنہ کرنے کے بعد ان کا کہنا تھا کہ بچی کا بچ جانا ایک معجزہ ہے۔


ایک نرس نے کہا، "یہ خوش قسمت ہے۔" میں کہتی ہوں کہ اگر یہ خوش قسمت ہوتی تو یہاں ہونے کے بجائے اپنے گھر پر اپنے خاندان کے ساتھ ہوتی۔


جب اسے آپریشن تھیٹر لے جایا جا رہا تھا تو اس کا ہاتھ میرے ہاتھ میں موجود تھا۔

میں اپنے ہونٹ اس کے کان کے قریب لے گئی۔ میرے نتھنوں میں فوراً خون کی بو گھسنے لگے۔ میں پیچھے ہوئی، ایک گہرا سانس لیا، اور وہیں کھڑی ہو گئی، میں صرف تصور ہی کر سکتی تھی کہ وہ کس کرب سے گزری تھی۔ میں نے اس سے اس کا نام پوچھا اور جواب میں اس نے صرف ایک آواز نکالی۔ میں نہیں سمجھ پائی کہ وہ کیا کہنا چاہ رہی تھی، سو میں نے دوبارہ پوچھا، مگر اب کی بار اس نے آنکھیں بند کر لیں۔

درد ہو رہا ہے؟ اس نے مجھے ایسی بے چینی سے دیکھا جیسے اس واضح سی بات پر ایک بے وقوفانہ سوال پوچھنے پر حیران ہو۔ اس نے اپنی ٹانگوں کے درمیان اشارہ کیا۔ میں اس کی آنکھوں میں درد پڑھ سکتی تھی، مجھے ایسا لگا کہ یہ درد میرا اپنا ہے۔

فارینزکس میں اپنے 15 سال سے زائد کے کریئر میں میں نے ہمیشہ جذبات سے عاری رہنے پر فخر کیا ہے۔ کیس چاہے کتنا ہی کربناک کیوں نہ ہو، میں ہمیشہ اسے اپنے جذبات سے علیحدہ رکھ کر اپنا کام کرتی ہوں۔ میں نے دیکھا ہے کہ ایک انسان دوسرے انسانوں کے ساتھ کس قدر ظلم و ستم کر سکتا ہے، اور یہ کہ کچھ لوگ کس قدر درد سہہ سکتے ہیں اور زندہ بچ جاتے ہیں۔ مگر جو اس بچی کے ساتھ ہوا تھا، وہ حقیقت سے پرے معلوم ہو رہا تھا۔

آپریشن تھیٹر میں اسے جنرل اینیستھیسیا کے زیرِ اثر رکھا گیا۔ سرجنز نے اس کے گلے کے زخم کا آپریشن کرتے ہوئے اسے سطح در سطح ٹھیک کیا۔

اس کے ساتھ جو ہوا، اسے وحشیانہ سلوک قرار دینا بہت چھوٹا لفظ ہوگا۔ اسے ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرنے کے بعد پھینک دیا گیا۔ کیا مجرمان کو انسان بھی کہا جا سکتا ہے؟ اور وہ قانون کی گرفت سے آزاد گھوم رہے ہیں۔ میں یہ سوچ کر ہی کانپ جاتی ہوں کہ وہ کسی اور کو بھی ایسے ہی اپنی ہوس کا نشانہ بنائیں گے۔

تقریباً دو گھنٹے بعد سرجنز نے اپنا کام مکمل کر لیا۔ اس کے دائیں ہاتھ کے کٹ چکے بافتوں کا آپریشن بعد میں کیا جانا تھا۔ تب تک کے لیے اسے انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں منتقل کر دیا گیا۔

اس رات میں بس یہ چاہتی تھی کہ جلد از جلد گھر پہنچ جاؤں، اپنے بچوں کو گلے سے لگاؤں اور انہیں بتاؤں کہ میں انہیں کتنا چاہتی ہوں۔

اگلی دفعہ جب میں نے اسے دیکھا تو وہ آئی سی یو میں تھی۔ اس نے اپنی آنکھیں کھولیں، اور میری جانب ایک شکستہ سی مسکراہٹ سے دیکھا۔ میں اس کی ہمت کی داد دیے بغیر نہ رہ سکی۔

اس کے بعد ماہرینِ نفسیات نے اس کا معائنہ کیا۔ انہوں نے پایا کہ وہ شدید ذہنی دباؤ کا شکار تھی، اور اس صورتحال سے نکلنے کے لیے اسے مسلسل تھیراپی کی ضرورت ہے۔ ماہرینِ نفسیات روزانہ کی بنیاد پر اس کا جائزہ لیں گے۔ وہ اس صدمے سے گزری ہے جس کا ہم اور آپ تصور بھی نہیں کر سکتے۔

جسمانی طور پر اس کے زخم بھر رہے ہیں، مگر اس کی روح کو پہنچنے والے زخم بھرنے میں ایک عمر لگے گی۔

انگلش میں پڑھیں۔

ڈاکٹر سمیہ سید طارق

ڈاکٹر سمیہ سید طارق پولیس سرجنز آفس کراچی میں سینیئر میڈیکولیگل آفیسر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔