پاناما کیس: ’جائیداد مریم نواز کی ہے تو بھی کیا فرق پڑتا ہے؟‘
اسلام آباد: سپریم کورٹ میں پاناما کیس پر درخواستوں کی سماعت کے دوران وازیر اعظم کی صاحبزادی مریم نواز کے وکیل شاہد حامد کا بتانا تھا کہ ان کی مؤکلہ کی کوئی بیرون ملک جائیداد نہیں، لندن فلیٹس ان کے بھائی کی ملکیت ہیں جبکہ ان کے بھائی بھی یہ ہی کہتے ہیں کہ یہ جائیدادیں ان کی ہیں۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بنچ کے سامنے دلائل دیتے ہوئے شاہد حامد کا کہنا تھا کہ مریم نواز کے مطابق انہیں والد کے زیر کفالت کہا جارہا ہے، حالانکہ ایسا نہیں، ایسا صرف اس لیے کہا جارہا ہے تاکہ ان کے والد کو جائیدادوں کے معاملے میں ملوث کیا جاسکے۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت پانام کیس میں گذشتہ روز جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف نے اپنے دلائل مکمل کیے تھے جس کے بعد آج سے مریم نواز کے وکیل شاہد حامد نے دلائل کا آغاز کیا۔
شاہد حامد کا عدالت کو کہنا تھا کہ مریم نواز عام شہری ہیں جبکہ یہ عوامی اہمیت کا معاملہ کیسے ہوسکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاناما کیس: جماعت اسلامی کے وکیل پر عدالت برہم
جس پر جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نواز شریف کی حد تک معاملہ عوامی اہمیت کا ہے۔
جسٹس گلزار کا کہنا تھا کہ مریم نواز کے خلاف سپریم کورٹ سے کوئی فیصلہ نہیں مانگا گیا۔
مریم نواز کے وکیل شاہد حامد کا کہنا تھا کہ اگر فرض کرلیں کہ بیرون ملک جائیداد مریم نواز کی ہے تو پھر بھی کیا فرق پڑتا ہے؟
جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ سوال یہ بھی ہے کہ عدالت منتازع حقائق پر فیصلہ دے سکتی ہے اور متنازع حقائق پر فیصلہ شواہد ریکارڈ کرنے سے ہوسکتا ہے۔
شاہد حامد کا کہنا تھا کہ مریم نواز اپنے والد کے زیر کفالت نہیں ہیں اور اگر وہ زیر کفالت نہیں ہیں تو لندن فلیٹس مریم نواز کے ہوں تو بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔
جس پر جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ الزام یہ ہے کہ مریم نواز اپنے والد کی نمائندگی کر رہی ہیں۔
مریم نواز کے وکیل شاہد حامد نے عدالت کو بتایا کہ یہ تو درخواست گزار ثابت کرے گا، اور بارِ ثبوت شکایت کنندگان پر ہے۔
شاہد حامد کا مزید کہنا تھا کہ کیس کے حوالے سے آئے روز عدالت سے باہر ہونے والے انکشافات پر حیرت ہوتی ہے، جو کاغذات پہلے دن سے عدالت کے پاس ہیں کبھی بی بی سی، جرمن میڈیا اور آئی سی آئی جے سمیت دیگر غیر ملکی ادارے سامنے لارہے ہیں، اور ان کاغذات کو لہرا کر کہا جاتا ہے کہ نئی دستاویزات سامنے آگئیں۔
جس پر جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ غیر ملکی میڈیا میں جو آیا ہے وہ عدالتی ریکارڈ پر موجود ہے۔
شاہد حامد کا یہ بھی کہنا تھا کہ عدالت کے باہر میڈیا پر جو ماحول بنا ہوا ہے وہ حیران کن ہے جبکہ عدالت کے باہر سیاسی لڑائی جاری ہے۔
جس پر اعتراض کرتے ہوئے جسٹس آصف کھوسہ کا کہنا تھا کہ سیاسی لڑائی کے الفاظ مناسب نہیں، سیاسی اختلاف کہا جاسکتا ہے۔
جس کے بعد شاہد حامد نے سیاسی لڑائی سے متعلق اپنے الفاظ واپس لے لیے۔
قطر سے آنے والے خط کا تذکرہ
شاہد حامد کے دلائل کے دوران جسٹس آصف کھوسہ کا کہنا تھا کہ فریقین نے پہلے جواب میں قطری خط کا ذکر نہیں کیا تھا، تاہم ضمنی جواب میں قطری خط کا ذکر کیا گیا۔
جسٹس آصف کھوسہ کا کہنا تھا کہ 5 نومبر کے تحریری بیان میں قطری سرمایہ کاری کے خط کا ذکر نہیں کیا گیا تھا، 7 نومبر کو داخل کرائے گئے ضمنی تحریری جواب میں بھی قطری خط کا ذکر نہیں تھا۔
جسٹس عظمت نے مریم کے وکیل کی توجہ اس ای میل کی طرف دلائی جس میں مریم نے 2004 میں تسلیم کیا تھا کہ وہ نیلسن اور نیسکول کی بینیفیشل مالک ہیں۔
دستخط کی تصدیق
جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ کیا ہم مریم نواز کے اصل دستخط اس دستاویز میں کیے گئے دستخطوں سے میچ کرسکتے ہیں؟
جس پر شاہد حامد کا کہنا تھا کہ عدالت مریم نواز کے دستخطوں کا جائزہ لے سکتی ہے، مریم نواز کے نام سے منسوب جس دستاویز کا حوالہ دیا جارہا ہے اس پر مریم کے جھوٹے دستخط موجود ہیں۔
عدالت کا کہنا تھا کہ بظاہر دستخط میں کافی فرق نظر آرہا ہے مگر ججز دستخط کی سائنس کے ماہر نہیں ہوتے۔
اس موقع پر مریم نواز کے وکیل شاہد حامد نے دستخط کو دیکھنے کے لیے عدالت کو محدب عدسہ بھی فراہم کیا۔
وراثتی جائیداد کی تفصیلات طلب
دوران سماعت عدالت نے وکیل شاہد حامد سے وزیراعظم کے والد میاں شریف کی وفات کے بعد وراثتی جائیداد کی تقسیم کی تفصیلات بھی طلب کرلیں۔
جسٹس کھوسہ نے شاہد حامد سے استفسار کیا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ وراثتی جائیداد کی تقسیم کے حوالے سے عدالت کو آگاہ کیا جا سکے؟ اور ایک دو روز میں وراثتی تقسیم کی تفصیلات عدالت میں پیش کردی جائیں؟
جس پر شاہد حامد نے عدالت کو بتایا کہ نواز شریف کی جانب سے کاغذات نامزدگی میں کہا گیا تھا کہ وہ اپنی والدہ کے گھر میں رہتے ہیں۔
شاہد حامد کا کہنا تھا کہ اگر کوئی ٹیکس ریٹرن نہ جمع کرائے تو اسے 28 ہزار روپے جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے۔
مزید پڑھیں: جرمن اخبار نے مریم نواز کا پاناما پیپر سے تعلق ظاہر کردیا
جس پر عدالت نے شاہد حامد کو بتایا کہ ان کے مؤکل کیپٹن صفدر نے 2011 میں ٹیکس رہٹرن جمع نہیں کروایا تھا۔
جسٹس شیخ عظمت نے استفسار کیا کہ ٹیکس ریٹرن جمع نہ کروانے کا کیا نتیجہ ہوگا؟
شاہد حامد نے وضاحت دیتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ 2011 سے پہلے کیپٹن صفدر کی تنخواہ سے ٹیکس کٹوتی ہوتی تھی۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ ان پر یہ الزام بھی ہے کہ انہوں نے گوشواروں میں اہلیہ مریم نواز کے اثاثے ظاہر نہیں کیے۔
جس پر شاہد حامد کا کہنا تھا کہ یہاں نااہلی یا ٹیکس چوری کا سوال نہیں ہے جبکہ کیپٹن صفدر نے کاغذات نامزدگی کے ساتھ مریم نواز کے گوشوارے شامل کیئے تھے۔
جسٹس آصف کھوسہ نے وکیل سے سوال کیا کہ ٹیکس ریٹرنز فائل نہ کرنے پر کیا الیکشن کمیشن اور انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ نے کوئی اقدام نہیں کیا؟
ان کا مزید کہنا تھا کہ عدالت سے کیپٹن صفدر کی نااہلی کی استدعا نہیں کی گئی۔
اس موقع پر جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ کیپٹن صفدر کی نااہلی مانگی گئی ہے۔
جسٹس آصف کھوسہ کا کہنا تھا کہ کیپٹن صفدر پر یہ الزام ہے کہ وہ ٹیکس ریٹرن فائل نہ کرنے پر ایماندار نہیں رہے۔
جس پر وکیل شاہد حامد کا کہنا تھا کہ ٹیکس ریٹرن فائل نہ کرنے پر نااہل قرار دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ ٹیکس کا معاملہ ایف بی آر کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔
جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ کیپٹن صفدر کے خلاف ریفرنس الیکشن کمیشن میں زیر التواء ہے، الیکشن کمیشن کو ریفرنس پر فیصلہ دینے کا مکمل اختیار موجود ہے، اور اگر ریفرنس میں بھی یہی سوال اٹھایا گیا ہے تو سپریم کورٹ مداخلت کیوں کرے؟
جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ آرٹیکل 184/3 کے تحت متوازی کارروائی کیسے کرسکتی ہے؟
جس پر شاہد حامد کا کہنا تھا کہ عدالت ریفرنس خود سنے تو اس کی مرضی ہے۔
جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ جب ایک متعلقہ بااختیار فورم ہے تو اس کے مقدمات ہم کیوں سنیں؟ دیگر ادارے بھی ریاست نے آئین کے مطابق ہی بنائے ہیں۔
شاہد حامد نے عدالت کو وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم ہو یا عام شہری، قانون سب کے لیے برابر ہے، اورحقیقت یہ ہے کہ وزیر اعظم نے خود کو احتساب کے لیے پیش کیا ہے۔
جس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے سوال کیا کہ کسی رکن اسمبلی کے لیے کیا طریقہ کار ہے؟
شاہد حامد نے عدالت کو بتایا کہ منتخب نمائندے کی نااہلی کے لیے کو وارنٹو کی رٹ دائر کی جا سکتی ہے۔
جس پر جسٹس شیخ عظمت نے شاہد حامد سے استفسار کیا کہ کیا انہیں سپریم کورٹ میں درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض ہے؟
شاہد حامد نے عدالت کو بتایا کہ وہ صرف عدالتی سوالات کے جواب دے رہے ہیں۔
جسٹس آصف کھوسہ کا کہنا تھا کہ اس وجہ سے کہ یہ معاملہ الیکشن کمیشن میں التواء کا شکار ہے تو سپریم کورٹ بھی اس پر کارروائی نہ کرے۔
جسٹس آصف کھوسہ کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ الیکشن کمیشن کو کرنا ہے کہ معاملہ اس کے دائرہ اختیار میں آتا بھی ہے یا نہیں؟
اس موقع پر انہوں نے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان کے خلاف ریفرنس اسپیکر نے مسترد کیا تھا تو معاملہ سپریم کورٹ میں آیا تھا۔
جسٹس عظمت سعید نے سوال کیا کہ کیا وزیراعظم کی نا اہلی کا کیس کسی ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے؟
شاہد حامد نے عدالت کو بتایا کہ اسپیکر کے فیصلے کے خلاف اپیل لاہور ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے۔
جس پر جسٹس کھوسہ کا کہنا تھا کہ یہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، ریفرنس اس کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔
شاہد حامد نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ایک الزام پر ریفرنس دوسرے فورم پر بھی موجود ہے۔
جس پر جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ ہمیں تشویش ہے کہ داد رسی کے لیے فورم قانون کے تحت موجود ہیں، اور ہم اس کیس کا جائزہ کیسے لیں جس کے لیے دوسرے فورم موجود نہیں۔
اس موقع پر جسٹس آصف کھوسہ کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 63 کے تحت اسپیکر سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔
جسٹس کھوسہ نے وکیل سے سوال کیا کہ کیا اسپیکر کے ریفرنس خارج کرنے کی صورت میں دوسرا شخص بھی اسپیکر کے پاس داد رسی کے لیے جائے؟
شاہد حامد کا کہنا تھا کہ بڑا اعتراض صرف عدالتی دائرہ اختیار پر ہے اور درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر مجھے کوئی اعتراص نہیں۔
عدالت نے شاہد حامد کو اس اختلافی نکتے پر کہ مریم نواز جائیدادوں کی بینیفیشل مالک ہیں یا ٹرسٹی کی مکمل وضاحت کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے کیس کی سماعت کو کل تک کے لیے ملتوی کردیا۔
یاد رہے کہ 4 جنوری سے پاناما کیس پر درخواستوں کی سماعت سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں قائم نیا 5 رکنی لارجر بینچ کررہا ہے جس میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس اعجاز افضل، جسٹس عظمت سعید شیخ اور جسٹس گلزار احمد شامل ہیں۔
پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ میں آئینی درخواستیں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)،جماعت اسلامی پاکستان (جے آئی پی)، عوامی مسلم لیگ (اے ایم ایل)، جمہوری وطن پارٹی (جے ڈبلیو پی) اور طارق اسد ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر کی گئی تھیں۔